کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 613
یہ دلیل کیسے بن سکتی ہے؟ صاحب ِمشکوٰۃ نے اس حدیث کو عنوان ’’باب الذکر بعد الصلوٰۃ‘‘ کے تحت ذکر کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولف کے نزدیک اس سے مقصود عمومی ذکر واذکار ہیں جو انفرادی طور پر ہاتھ اٹھائے بغیر دعا ہی کی ایک شکل ہے اور ان میں کسی کوکوئی اختلاف ہی نہیں کہ جس طرح حالت نماز میں ذِکر ہیں، اسی طرح سلام پھیرنے کے بعد بھی بہت ساری دعائیں پڑھنا مسنون ہیں۔ہر مقام پر یہ سمجھ لینا کہ ہاتھ اُٹھائے بغیر دعا کا کوئی تصور نہیں، ایسا تصور جہالت اور شرعی نصوص سے لاعلمی پر مبنی ہے۔ ۲۔ اجتماعی دعا کے قائلین کا استدلال مصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت سے بھی ہے جو یزید بن اسود عامری سے مروی ہے کہ ((صلَّیْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْفَجْرَ، فَلَمَّا سَلَّمَ انْحَرَفَ ورفع یدیہ ودعا)) ’’میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو قبلہ کی طرف سے منہ موڑ کر دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعا کی۔‘‘ [1] اس روایت کی سند بھی ’’حسن ‘‘درجہ کی ہے مگر اس میں ورفع یدیہ ودعاکے الفاظ نہیں۔ [2] یہ حدیث ابوداود، نسائی، ترمذی اور مسنداحمد وغیرہ میں بھی ہے مگر ان میں بھی مذکورہ الفاظ نہیں۔
[1] مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الصلوٰۃ ،مَنْ کَانَ یَسْتَحِبُّ إِذَا سَلَّمَ أَنْ یَقُومَ أَوْ یَنْحَرِفَ،رقم:۳۰۹۳ [2] مصنف ابن ابی شیبہ کی کتاب الصلاۃ باب من کان یستحب إذا سلم أن یقوم أو ینحرف(۱؍۳۰۲) میں یہ روایت موجود ہے لیکن ’ و رفع یدیہ و دعا‘ کے الفاظ اس میں موجود نہیں جیسا کہ محترم حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ نے بھی اشارہ کیا ہے ۔ ان الفاظ کے اضافے کا معاملہ بھی ایک داستان ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ چند اہل علم نے غلط فہمی سے اسے اپنی کتابوں میں نقل کردیا اور ان کے بعد میں آنے والے دیگر اہل علم بھی اصل کتاب سے مراجعت کیے بغیر حوالہ دیتے رہے۔ مثلاً شیخ محمد بن مقبول الاہدل یمنی(متوفی ۱۲۵۸ھ) نے سب سے پہلے اپنے رسالہ سنیۃ رفع الیدین فی الدعا بعد الصلاۃ المکتوبۃ میں اسے ابن ابی شیبہ کے حوالہ سے نقل کیا۔ اسی طرح شیخ عبد الحیی لکھنوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب النافع الکبیر کے آخر میں فرض نمازوں کے بعد دعائے اجتماعی کے ثبوت کے لیے اس سے ملتی جلتی روایت ابن السنی کی سند سے ذکر کی۔ پھر ابن ابی شیبہ ہی کی روایت کی بنیاد پر سید نذیر حسین دہلوی، محمد عبد الرب ، سید حسین احمد وغیرہ نے بھی فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کے جواز کا فتویٰ دے دیا۔ دیکھئے فتاویٰ نذیریہ،ج:۱،ص:۵۶۶، ۵۷۰۔ اسی طرح حافظ عبداللہ روپڑی نے بھی ابن ابی شیبہ کی اس روایت کے پیش نظر فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کے ثبوت کا فتویٰ دیا۔ دیکھئے فتاویٰ اہل حدیث،ج:۲،ص:۱۹۰ تا۱۹۳۔ اسی طرح محمد علی المالکی (متوفی:۱۳۶۶ھ) نے اس کتاب کی تلخیص میں، پھر ظفر احمد تھانوی نے انہی کا تتبع کرتے ہوئے اعلاء السنن (۴؍۱۶۴) میں اور علامہ بنوری نے معارف السنن(۳؍۱۲۳) میں اسے ذکر کیا،حالانکہ اصل کتاب میں وہ الفاظ ہی نہ تھے کہ جن کی بنیاد پر مسئلہ مذکور ثابت کیا جا رہاتھا۔ مذکورہ بالا یہ تفصیل شیخ ابو غدہ عبدالفتاح نے اپنی تالیف ثلاث رسائل فی استحبب الدعاء،ص:۱۳۸ تا ۱۴۰ میں رقم کی ہے۔(محدث)