کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 60
اتَّفَقَ جس سے چاہا مسئلہ دریافت کرلیا اگرچہ اس امر پر اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مذاہب اربعہ کو چھوڑ کر مذہب خامس مستحدث کرنا جائز نہیں، یعنی جو مسئلہ چاروں مذہبوں کے خلاف ہو اُس پر عمل جائز نہیں کہ حق دائر و منحصر ان چار میں ہے مگر اس پر بھی کوئی دلیل نہیں کیونکہ اہل ظاہر ہر زمانہ میں رہے اور یہ بھی نہیں کہ سب اہل ہویٰ ہوں، وہ اس اتفاق سے علیحدہ رہے۔ دوسرے اگر اجماع ثابت بھی ہو جاوے مگر تقلید شخصی پر تو کبھی اجماع بھی نہیں ہوا۔‘‘ [1]
اس مکتوب میں اس سے قبل مولانا تھانوی نے یہ لکھا ہے ، یہ بھی بڑا قابل عبرت ہے، لکھتے ہیں:
’’تقلید شخصی کہ عوام میں شائع ہو رہی ہے اور وہ اس کو علماً اور عملاً اس قدر ضروری سمجھتے ہیں کہ تارکِ تقلید سے، گو کہ اس کے تمام عقائد موافق کتاب و سنت کے ہوں، اس قدر بغض و نفرت رکھتے ہیں کہ تارکین صلاۃ فساق و فجار سے بھی نہیں رکھتے اور خواص کا عمل و فتویٔ وجوب اس کا مؤید ہے۔‘‘ [2]
مولانا تھانوی ایک اور مقام پر تقلید و عدم تقلید کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’بعض مقلدین نے اپنے ائمہ کو معصوم عن الخطا و مصیب وجوباً و مفروض الاطاعت تصور کرکے عزم بالجزم کیا، کہ خواہ کیسی ہی حدیث صحیح مخالف قول امام کے ہو اور مستند قول امام کا بہ جز قیاس امرِدیگر نہ ہو، پھر بھی بہت سی علل و خلل حدیث میں پیدا کرکے، یا اس کی تاویل بعید کرکے حدیث کو رد کریں گے اور قول امام کو نہ چھوڑیں گے۔ ایسی تقلید حرام اور مصداق قولہ تعالیٰ ﴿اِتَّخَذُوْا أَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِِ اللّٰہِ﴾ اور خلاف وصیت ائمہ مرحومین کے ہے۔‘‘[3]
اس قسم کی تقلید جامد کو، جس کا تذکرہ مذکورہ اقتباسات میں کیا گیا ہے ، مولانا محمود الحسن نے بھی کفر سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ وہ ’’ایضاح الادلہ‘‘ میں تقلید کے اثبات پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’تمام نصوص ردّ تقلید سے اُس تقلید کا بُطلان ثابت ہوتا ہے کہ جو تقلید بہ مقابلہ تقلید احکامِ خدا اور رسولِ خدا ہو اوران کے اتباع کو اتباع احکامِ الٰہی پر ترجیح دے۔ سو پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس تقلید
[1] تذکرۃ الرشید:۱؍۱۳۱، ادارہ اسلامیات، لاہور:۱۹۸۶ء
[2] حوالہ مذکور و صفحۂ مذکور
[3] إمداد الفتاوٰی:۵؍۲۹۷، مکتبہ دارالعلوم کراچی، طبع جدید،۲۰۰۴ء