کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 59
مقابلے میں حدیث رسول سے اعراض و گریز ، ان کا وطیرہ اور شیوۂ گفتار ہے۔
ان کا یہ طرزِ عمل و فکر محدثین کے منہج و مسلک سے یکسر مختلف ہے، شیوۂ مسلمانی کے برعکس ہے اور امت کی فکری وحدت و یک جہتی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والا ہے۔
ان حضرات کے بارے میں ہماری بات کوئی مفروضہ یا واہمہ نہیں، ایک حقیقتِ واقعہ ہے ، شک و شبہ سے بالا ہے اور روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ جس کا مشاہدہ صدیوں سے ہو رہا ہے اورہردور کے اہل علم نے اس کااظہار کیا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ جن کی بابت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اہل تقلید سے کوئی مخاصمت رکھتے تھے، بلکہ پاک و ہند کے وابستگانِ تقلید تو اپنے آپ کو مسند ولی اللہ ہی کے جانشین اور فکر ولی اللہ کے وارث سمجھتے ہیں۔ شاہ صاحب نے اپنی کتابوں میں متعدد جگہ اہل تقلید کے مذکورہ رویے پر سخت تنقید کی ہے اور اسے اتباع رسول کے تقاضوں سے صریح انحراف اور ائمہ کرام کومعصوم ماننے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اس کی تفصیل شاہ صاحب کی کتابوں ’’التفہیمات الالھیۃ، حجۃ اللّٰہ البالغۃ، اور العقد الجید وغیرہ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اہل تقلید کے اس رویے کے بارے میں خود اکابر علماے احناف نے بھی اسی قسم کے تأثرات کا اظہار کیا ہے۔
اہل علم ان سے باخبر ہیں تاہم یہاں مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کے بھی دو اقتباسات پیش کرنے مناسب معلوم ہوتے ہیں، ان میں انھوں نے اہل تقلید کے اس رویے کا اعتراف بھی کیا ہے اور اس پر سخت افسوس کا اظہار بھی۔ مولانا تھانوی اپنے ایک مکتوب میں، جو انھوں نے مولانا رشید احمد گنگوہی مرحوم کے نام تحریر کیا ، لکھتے ہیں:
’’اکثر مقلدین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قولِ مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے (تو) اُن کے قلب میں انشراح و انبساط نہیں رہتا بلکہ اوّل استنکار قلب میں پیدا ہوتا ہے پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید ہو اور خواہ دوسری دلیل قوی اُس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں بہ جز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود اپنے دل میں اُس تاویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرت مذہب کے لیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں۔ دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح صریح پر عمل کرلیں۔ بعض سنن مختلف فیہا مثلاً آمین بالجہر وغیرہ پر حرب و ضرب کی نوبت آجاتی ہے۔ اور قرونِ ثلاثہ میں اس کا شیوع بھی نہ ہوا تھا بلکہ کَیْفَمَا