کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 57
بغیر قبول کرے اور اس پرعمل کرے۔
واقعہ یہ ہے کہ اگر حدیث واقعی ماخذ ِ شریعت ہے ، یعنی اسے تشریعی اور تقنینی حیثیت حاصل ہے( اور بلاشبہ اسے یہ مقام اور حیثیت حاصل ہے) تو پھر ہر فرقے کا اپنے ذہنی تحفظات اور مخصوص فقہی استنباطات واجتہادات کو اہمیت دینا اور حدیث کو بہ لطائف الحیل نظر انداز کردینا یا کسی نہ کسی خوش نما خانہ ساز اصول کے ذریعے سے اسے مسترد کردینا، اسے کس طرح مستحسن قرار دیا جا سکتاہے ؟ یا کس طرح اسے حدیث ِ رسول کو ماننا تسلیم کیا جا سکتا ہے ؟
حدیث ِ رسول کو ماخذ ِ شریعت ماننے کا مطلب اور تقاضا تو یہ ہے کہ جو حدیث ، محدثانہ اصولِ جرح و تعدیل کی روشنی میں صحیح قرار پائے ، اسے مان لیا جائے اورجو ضعیف قرار پائے، اسے ناقابل استدلال تسلیم کیا جائے۔ محدثین کا یہی اصول اور منہج ہے اور یہی منہج یا طرزِ فکر و عمل امت ِ مسلمہ کے باہمی اختلافات کے ختم یا کم سے کم کرنے کا واحد طریقہ یا اس کا ضامن ہے۔ اس کے برعکس رویہ کہ صحت ِ سند کے باوجود اپنی ہی یاکسی مخصوص فقہی رائے ہی کو ماننا اور ضعف ِ سند کے باوجود ضعیف حدیث ہی کو ترجیح دینا، اسے نہ حدیث ِ رسول کو ماننا ہی تسلیم کیا جاسکتا ہے اور نہ اس طریقے سے فقہی اختلافات اور حزبی تعصبات کا خاتمہ ہی ممکن ہے، جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان متحد ہوں، فکر و عمل کی یک جہتی ان کے اندر پیدا ہو اور دشمن کے مقابلے میں وہ بنیانِ مرصوص بن جائیں۔ اور ایسا ہونا فقہی و حزبی اختلافات و تعصبات کی شدت ختم ہوئے بغیر ممکن نہیں۔
غیر محدثانہ روش اوراس کے نقصانات:
یہ غیر محدثانہ رویہ، جس نے امت ِ واحدہ کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ہے ، کن لوگوں نے اپنایا ہوا ہے؟اور کیوں اپنایا ہوا ہے ؟ اور اسے چھوڑنے کے لیے وہ تیار کیوں نہیں ہیں؟ ان تینوں سوالوں کا جواب واضح ہے:
۱۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے محدثین کی روش سے انحراف کیا ہے جو خالص اور ٹھیٹھ اسلام کی آئینہ دار اور ((مَا أَنَا عَلَیْہِ وَ أَصْحَابِی)) کی مصداق تھی اور ہے۔
۲۔ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ اس لیے کہ انھوں نے اپنے آپ کو کسی ایک فقہی مذہب سے وابستہ کر لیا جس کا اللہ نے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعاً حکم نہیں دیا۔ اتباع کے بجائے، انھوں نے ابتداع(اپنی طرف سے شریعت سازی) کا اور اطاعت کے بجائے تقلید کا راستہ اختیار کیا۔