کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 56
کی روشنی میں پیش کر سکے، کوئی نص صریح نہ ہو تو قرآن و حدیث کے نظائر کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی حلت و حرمت اور جواز و عدم جواز کا فیصلہ کر سکے۔
۲۔ وہ کسی حالت میں بھی قرآن و حدیث اور ان کے نظائر سے صرفِ نظر کرکے محض آرائے رجال اور اقوال ائمہ کی روشنی میں فتویٰ نہ دے، کیونکہ وہ کسی خاص فقہ یا امام کا نمائندہ نہیں، بلکہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب افتاء کا جانشین ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا فتویٰ صرف اور صرف اللہ و رسول کے بتائے ہوئے احکام اور شریعت کے اصول و ضوابط کے دائرے میں ہو، نہ کہ اس سے متجاوز ہو۔
۳۔ مفتی کے اندر فقہی جمود نہیں، بلکہ فقہی توسع ہو، کیونکہ نئے نئے مسائل میں عوام کو سہولت اسی وقت مل سکتی ہے جب مفتی فقہی جمود سے پاک اور اسلاف کے علمی ذخیرے سے بلا تعصب استفادہ کرنے کا قائل ہو۔ ورنہ وہ قرآن و حدیث کی نصوص کو بھی نظر انداز یا ان کی دو راز کار تاویل کرے گا اور عوام کی سہولت کی بھی اسے پرواہ نہ ہوگی۔ یوں وہ اپنے فتویٰ میں اَوفق بالکتاب والسنۃ کا اہتمام کرے گا اور نہ ارفق بالناس ہی کا۔ جب کہ یہ منصب ان دونوں ہی باتوں کا متقاضی ہے۔
علماے اہل حدیث کا امتیاز:
الحمد للہ علماے اہل حدیث کے فتاویٰ مذکورہ خصوصیات اور منہج محدثین ہی کے حامل ہوتے ہیں، کیونکہ انہی کی تدریسی، تبلیغی اور علمی خدمات کے نتیجے میں برصغیر پاک و ہند میں فقہی و تقلیدی جمود ٹوٹا اور عمل بالحدیث کو فروغ حاصل ہوا، اس لیے اہل حدیث میں شخصیت پرستی ہے نہ اکابر پرستی اور نہ ہی کسی ایک فقہ کی پابندی پر زور۔ ان کے عوام بھی کسی مسئلے میں علماء کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اس سے ان کا مقصد صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا حل معلوم کرنا ہوتا ہے اور علماء بھی اپنی فہم کی حد تک سوال کا جواب دیتے وقت قرآن و حدیث کے دائرے سے تجاوز نہیں کرتے ۔ بنابریں منصب افتاء کی اہمیت کو صرف علماے اہل حدیث ہی سمجھتے اور اس کے تقاضوں کو بھی وہی ادا کر تے ہیں۔ کَثَّرَ اللّٰہُ سَوَادَھُمْ
یہی وجہ ہے کہ محدثین اور ان کے فکر و عمل کے وارث عاملین بالحدیث کے علاوہ،سب ہی گروہ حدیثِ رسول کو اُس طرح شرح صدر کے ساتھ قبول کرتے ہیں، نہ قبول کرنے کے لیے تیار ہی ہیں، جس طرح کہ اس کے ماخذ ِ شریعت ہونے کا تقاضا ہے، جب کہ صحیح گروہ وہی ہو سکتا ہے جو احادیث ِ صحیحہ کو ذہنی تحفظ کے