کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 224
یعنی ’’اولیٰ سے مراد وہ اذان ہے جو نمازِ فجر کا وقت شروع ہونے پر دی جاتی ہے۔ یہ اقامت کے مقابلے میں پہلی اذان اور فجر سے پہلے دی جانے والی اذان کے مقابلے میں دوسری اذان ہے۔ یہاں اولیٰ (صیغہ مونث) یا تو اقامت کے مقابلے میں بولا گیا ہے یا مناداۃ یا دعوۃ ِتامہ کے مقابلے میں او ریہ بھی احتمال ہے کہ یہاں محذوف عبارت اس طرح ہو کہ جب موذن پہلی مرتبہ خاموش ہوجائے۔‘‘ [1] گویا’’الاولیٰ‘‘سے مراد وہ اذان ہے جو صبح کی نماز کے وقت کے داخل ہونے پر دی جاتی ہے۔ [2] اس کی دلیل صریح حدیث میں مذکور ہے جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیث ِعائشہ رضی اللہ عنہ سے ذکرکیا اور جسے امام لیث مصری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے: عن عائشۃ قالت:صلی رسول اللّٰه صلی اللّٰہ علیہ وسلم العشاء ثم صلی ثمان رکعات ورکعتین جالسا، ورکعتیں بین ندائین ولم یکن یدعھما۔ وفی روایۃ اللیث: ثم یمہل حتی یوذن بالاولی من صلاۃ الصبح فیرکع رکعتین)) [3] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز (تہجد و تراویح) کے بعد دونوں اذانوں کے درمیان دو رکعت پڑھتے تھے (صبح سے پہلے کی سنت)‘‘ [4]
[1] فتح الباری:،۲؍۱۰۹،۱۱۰ [2] یہاں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی عبارت کا مفہوم سمجھنے میں مفتی صحیفہ اہل حدیث کراچی غلطی کھارہے ہیں کیونکہ یہاں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ پہلی اذان کے دو مطلب بیان کر رہے ہیں: اقامت(تکبیر) کے اعتبار سے اذانِ فجر پہلی اذان ہے۔ نمازِ فجر کی دو اذانوں میں سے پہلی اذان( اگر فجر کی دو اذانیں کہی جا ئیں) لیکن یہاں مفتی صحیفہ صرف ایک مفہوم ہی مخصوص کر رہے ہیں جو فہم کا نقص ہے۔ دراصل مفتی صاحب کو اس بارے میں ہمارے ہاں’اذانِ سحری‘ کے عوامی لفظ سے التباس پیدا ہوا ہے کہ شاید سحری کے کھانے پینے کے لیے جگانے کی غرض سے کوئی اذان مسنون ہے، حالانکہ فجر کی اگر دو اذانیں کہی جائیں تو دو اذانیں فجر کے لیے ہی ہوتی ہیں۔ پہلی نمازِ فجر کی تیاری کے لیے وقت فجر سے پہلے فجر(صبح) کاذب کے وقت اور دوسری اذان نمازِ فجر کے اعلان کی غرض سے یعنی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق دونوں اذانیں فجر سے متعلق ہی ہیں۔ ورنہ سحری کھانے کے لیے اگر اذان کہی بھی جاتی تو اس میں اَلَاصَلّوا فی الرحال کی قسم سے متعلق ہی ہیں۔ ورنہ سحری کھانے کے لیے اگر اذان کہی بھی جاتی تو اس میں اَلَا صَلّوا فی الرحال کی قسم کے کلمات حی علی الصلوٰۃ وغیرہ کی طرح کہے جاتے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو فتویٰ مفتی مولانا ابو البرکات مع توثیق حضرت حافظ محمدگوندلوی رحمہ اللہ نشر کردہ ہفت روزہ ، اہل حدیث، لاہور مجریہ ۴؍۱۹۷۰ء (جلد: ۱،شمارہ: ۴۷) (محدث) [3] فتح الباری:۳؍ ۴۲،۴۳ [4] صحیح البخاری،بَابُ المُدَاوَمَۃِ عَلَی رَکْعَتَیِ الفَجْرِ،رقم:۱۱۵۹