کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 179
البتہ جُنبی کے لیے یہ ہے کہ بلا معقول عُذَر (روزہ وغیرہ کے لیے) طہارت اور غسل کے بغیر کھانا نہ کھائے اور روزہ کی صورت میں کم از کم طہارتِ صُغریٰ (یعنی وضوء) کا اہتمام ہونا چاہیے۔ جنابت کی حالت قرآن کریم کو چھونا یا تلاوت کرنا: سوال: جنابت کی حالت میں یا بغیر وضوکے ’’قرآن کریم‘‘ کو چھونا یا تلاوت کرناجائز ہے؟امام بخاری رحمہ اللہ نے جو جواز نکالا ہے وہ درست ہے کہ نہیں؟ جواب: بحالتِ جنابت ’’قرآن مجید‘‘ کی تلاوت ناجائز ہے۔ اس بارے میں وارد روایات موضوع میں نص ہیں۔ جب کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال عمومی نصوص سے ہے۔ نص بہر صورت عموم پر مقدم ہے۔ ممانعت کی روایات اگرچہ متکلم فیہ(یعنی ان میں اعتراض کیا گیا ہے) لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تحسین کا حکم لگایا ہے۔ اور صاحب ِ ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ فرماتے ہیں:روایات میں اگرچہ کلام(اعتراض) ہے لیکن ان کو جمع کرنے سے قوت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس بناء پر جمہور اہل علم منع ہونے کے قائل ہیں۔ جبکہ بلا وضوقرآن مجید کی تلاوت جائز ہے، کوئی حرج نہیں۔ جب کہ چھونا بغیر وضوکے ناجائز ہے۔ حدیث میں ہے: ((لَا یَمَسُّ القُراٰنَ إِلَّا طَاھِرٌ)) [1] یعنی ’’کوئی بلا طہارت قرآن کو مت ہاتھ لگائے۔‘‘[2] غسل کے بعد بدن کو تولئے سے پونچھنا : سوال: غسل کے بعد بدن کو کپڑے تولئے سے نہ پونچھنا اور وضو کے بعد اعضاء کو تولئے وغیرہ سے خشک کر لینا کوئی شرعی مسئلہ ہے تو واضح کریں؟
[1] موطأ امام مالک،الْأَمْرُ بِالوُضُوء ِ لِمَنْ مَسَّ الْقُرْآنَ ،رقم:۲۱۹، سنن الدارقطنی،بَابٌ فِی نَہْیِ الْمُحْدِثِ عَنْ مَسِّ الْقُرْآنِ،رقم:۴۳۷ [2] طاہر(پاک) کے مفہوم میں علماء کا اختلاف ہے، جو علماء بغیر وضوبھی مسِّ قرآن (قرآن کو ہاتھ لگانا)کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک طاہر سے مراد مسلمان یا حدثِ اکبر (جنابت) سے پاکی مراد ہے۔ اس لیے یہ علماء اس بات کے قائل ہیں کہ جس طرح بلا وضوتلاوت ِ قرآن کریم جائز ہے۔ اسی طرح مسِّ قرآن بھی جائز ہے۔ البتہ افضل بات یہی ہے کہ باوضوتلاوت اور مَسِّ قرآن کیا جائے۔(صلاح الدین یوسف)