کتاب: فتنوں میں مومن کا کردار - صفحہ 9
عَلَیْکُمْ بِالسَّکِیْنَۃِ وَالتَّضَرُّعِ فَإِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ : ﴿وَلَقَدْ أَخَذْنَاہُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوْا لِرَبِّہِمْ وَمَا یَتَضَرَّعُوْنَ﴾ ( المؤمنون :76) ترجمہ : امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا : اے لوگو ! اﷲ تعالیٰ نے حجاج بن یوسف کو تم پر بطور سزا مسلط کیا ہے، اﷲ کی سزا کا تلوار سے مقابلہ نہ کرو، بلکہ تم عاجزی اور گریہ وزاری کو اپنالو، اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :اور ہم نے انہیں عذاب میں گرفتار کیا، لیکن وہ اپنے رب کے سامنے نہیں جھکے اور نہ وہ گریہ وزاری کرتے ہیں۔ تَکُوْنُ فِتَنٌ لَا یُنْجِیْ مِنْہَا إلَّادُعَائٌ کَدُعَائِ الْغَرِیْقِ " (إبن أبی شیبۃ :7؍531۔حاکم :1؍687) ترجمہ :ایسے فتنے اٹھیں گے کہ جن سے نجات پانے کا واحد ذریعہ اللہ کے آگے اسطرح گڑگڑاکر دعائیں مانگناہے،جیسے کہ ڈوبتا ہوا شخص مانگتا ہے. 2۔دوسری علامت : علم اور علماء سے عدم رغبت فتنہ کی علامتوں میں سے ایک بہت بڑی علامت، علمی مجلسوں اور علماء کی صحبت، دین اور شرعی احکام سے لوگوں کی عدم رغبت ہے۔ اس لئے کہ جب دل مشغول ہوں ہوں گے اور اس میں فتنوں کی آگ بھڑک رہی ہوگی تو دل تحصیل علم کیلئے فارغ نہیں ہوتا اور نہ ہی علماء کی صحبت پر آمادہ ہوتا ہے، بلکہ علماء کی شان میں گستاخی، انہیں ذلیل سمجھنے، ان کی ناقدری کرنے، انکی عزتوں پر حملے کرنے اور انکی غیبت کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔حالانکہ علماء کی عزت اور تکریم دینی واجبات میں سے ایک ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " لَیْسَ مِنَّا مَن لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلَمْ یُؤَقِّرْ کَبِیْرَنَا وَیَعْرِفْ لِعَالِمَنَا حَقَّہُ"( احمد :.22755حاکم :1؍211۔ صحیح الجامع :1؍211 عن عبادۃ الصامت۔ حسن) مسند البزار کی روایت میں "وَیَفِ لِعَالِمِنَا" کے الفاظ بھی آئے ہوئے ہیں۔ ترجمہ : وہ ہم مسلمانوں میں سے نہیں جس نے ہمارے چھوٹے پر رحم نہیں کیا،اور بڑے کا احترام نہیں کیا۔اورہمارے عالم کا حق نہیں پہچانا۔ ایک روایت میں ہے کہ : ہمارے عالم کا پاس ولحاظ نہیں کیا۔ عموماً دیکھا جاتا ہے اگر علماء کرام ایسی باتیں کہیں جو عوام کی خواہشات کے موافق نہیں ہوتیں تو وہ نہ صرف علمائے کرام کی بے عزتی پر اتر آتے ہیں بلکہ انہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کرتے، دھمکیاں دیتے، ان پر کسی کا ایجنٹ ہونے، دین میں مداہنت کا الزام لگاتے ہیں،ان کے ساتھ گالی