کتاب: فتنوں میں مومن کا کردار - صفحہ 7
ہے، یہ تو بس اللہ کے آگے گڑگڑانے اور ایسی دعائیں مانگنے کا دور ہے جیسے ڈوبتا ہوا شخص مانگتا ہے.
اس زمانے میں کوئی کہتا تھا :"إِحْفَظُوْا لِسَانَکُمْ وَعَالِجُوْا قَلْبَکُمْ وَخُذُوْا مَاتَعْرِفُوْا وَدَعُوْا مَا تُنْکِرُوْا " ترجمہ : اپنی زبانوں کی نگہبانی کرو، اپنے دلوں کے علاج میں لگ جاؤ، جو کچھ جانتے ہو اس پر عمل کئے جاؤ اور جو نہیں جانتے اس کو چھوڑ دو۔
اور کوئی اعلان کرتا :" ھٰذَا زَمَانُ السُّکُوْتِ وَمُلَازِمَۃُ الْبُیُوْتِ " یہ زمانہ خاموشی کا زمانہ ہے اور اپنے دروازوں کو بند کرکے بیٹھ رہنے کا"۔
ان تمام احادیث، آثار اور اسلاف کے اقوال سے معلوم ہوا کہ فتنوں کے دور میں ایک مومن کا کیا کردار ہوتا ہے؟۔
فتنہ کی علامتیں
1۔ پہلی علامت :لوگوں کا عبادت سے منحرف ہونا :
1۔فتنہ کی سب سے پہلی نشانی انسانوں کا اﷲ تعالیٰ کی عبادت سے روگردانی کرنا ہے، اس لئے کہ جب فتنہ کی آگ دل میں لگی ہوئی ہو تو لوگوں کیلئے اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں،جس کے لئے وہ پیدا کئے گئے ہیں،کوئی لذت باقی نہیں رہتی۔ اگر کوئی عبادت بھی کرے تو وہ اس کی روح سے خالی رہتی ہے۔جب کہ ایک مومن اﷲ تعالیٰ کی عبادت کے بغیر اسی طرح تڑپتا ہے جیسے مچھلی پانی کے بغیر اور جاندار ہوا اور آکسیجن کے بغیر۔اور حقیقت یہ ہے اطمینان وسکون کی دولت اﷲ کی یاد سے ہی نصیب ہتی ہے۔فرمان الٰہی ہے : ﴿ أَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ﴾ (الرعد :28) ترجمہ : آگاہ رہئے کہ اﷲ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔
لیکن جب فتنہ کی آگ دلوں میں بھڑک رہی ہو تو انسان اﷲ کو بھول کر دن اور رات بیکار کی بحثوں، سیاسی باتوں، فیس بک، ٹویٹر،گوگل،واٹس اپ اور ان جیسے دیگر غیر ضروری امور میں گھنٹوں اپنے شب وروز کو تباہ وبرباد کرتا ہے،خبروں کے نام پر دن بھر TVسے چپکا رہتا ہے، لیکن اللہ کی عبادت کیلئے اسکا پل پل بھاری ہوجاتا ہے۔ جسکامشاہدہ آج کل عموما کیا جاتا ہے۔
2۔اضطراب وتشویش کے اس دور میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کی فضیلت واہمیت بھی بڑھ جاتی ہے، اس لئے کہ جو چیز جس قدر کم ہوجاتی ہے تو اسی قدر اس کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے، جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :عِبَادَۃٌ فِی الْہَرْجِ کَہِجْرَۃٍ إِلَیَّ۔(طبرانی :20؍213 وصححہ الألبانی فی صحیح