کتاب: فتنوں میں مومن کا کردار - صفحہ 5
دروازہ کھولنے والے اور خیر کا دروازہ بند کردینے والے ہوتے ہیں۔ اس شخص کیلئے جنت مبارک ہو جس کے ہاتھ میں اﷲ تعالیٰ نے بھلائی کھولنے کی چابی دی اور اس شخص کیلئے تباہی ہو جسکے ہاتھ میں اﷲ تعالیٰ نے برائی کھولنے کی کنجی رکھی ہے۔
اس حدیث سے پتہ چلا کہ انسانوں میں کچھ لوگوں کی فطرت میں اﷲ تعالیٰ نے خیر رکھا ہے اور کچھ لوگ فطری طور پر شر پسند رہتے ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک فتنوں کے دور میں اپنی اپنی فطرت کے مطابق کام کرتے ہیں۔
فتنوں میں مومن کا کردار کیا ہونا چاہئے ؟
1۔دور فتن میں جلد بازی ایک ایسی عادت ہے جو انسان کو سب سے زیادہ فتنوں میں مبتلا کرتی ہے، عموما ہمارا مشاہدہ ہے کہ جلد باز لوگ کوئی ایک بات سن لیتے ہیں اور ڈھنڈورا گلے ڈال کر اسے پیٹتے ہوئے نکل جاتے ہیں صبر،سکون، تحمل، معاملہ فہمی،سنجیدگی، وقار اورانتظار سے اس مخلوق کو کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اس طرح کے لوگ نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی مصیبت کا پٹارہ ثابت ہوتے ہیں۔اسی لئے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اس قماش کے لوگوں کو نصیحت فرماتے ہیں : لَا تَکُوْنُوْا عُجَلًا، مَذَایِیْعَ، بَذَرًا فَإِنَّ مِنْ وَرَائِکُمْ بَلَائً مُبَرِّحًا وَأُمُوْرًا رُدُحًا۔ (الأدب المفرد : 327۔ قال الألبانی : صحیح)
ترجمہ : تم جلد باز مت بنو،(بے بنیاد)خبریں پھیلانے والے اور فتنہ کی تخم ریزی کرنے والے نہ ہوجاؤ، اس لئے کہ تمہارے پیچھے بھاری مصیبتیں اور سخت ترین امور ہیں۔
2۔فتنوں کی تخم ریزی میں سب سے بڑا کردار جھوٹی، بے بنیاد اور سنی سنائی باتوں کو پھیلانے کا ہوتا ہے۔ کسی شخص نے کوئی بات سن لی اور اس کی تحقیق سے بے نیاز ہوکر اس کی نشر واشاعت میں مگن ہوگیا۔ اور اس طرح کے فتنہ پرور مسلم معاشرے میں ایک ڈھونڈو تو لاکھ ملتے ہیں۔اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" کَفٰی بِالْمَرْئِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ "۔(مسلم) ترجمہ :کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے صرف یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کرتا ہوا پھرے۔
3۔دور فتن میں ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے نشاطات اور سرگرمیوں کو محدود کردے، اس لئے کہ جو جتنی سرگرمی دکھائے گا اس کا اسی قدر فتنوں میں مبتلا ہوجانے کا امکان رہتا ہے۔ جیسا کہ زبان رسالت