کتاب: فتنوں میں مومن کا کردار - صفحہ 22
کَثِیْرٌ، وَلٰکِنْ إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَلْقِیَ اللّٰہَ خَفِیْفَ الظَّہْرِ مِنْ دِمَائِ النَّاسِ، خَمِیْصَ الْبَطَنِ مِنْ أَمْوَالِہِمْ، کَافًّا لِسَانَکَ عَنْ أَعْرَاضِہِمْ، لَازِمًالِأَمْرِ جَمَاعَتِہِمْ، فَافْعَلْ۔
" علم کئی طرح کے ہیں۔ لیکن تم کوشش کرنا کہ اﷲ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرو کہ تمہاری پیٹھ مسلمانوں کے خون سے بوجھل نہ ہو،تمہارا پیٹ ان کے مال سے خالی ہو، تمہاری زبان ان کی عزتوں سے محفوظ ہو اور تم مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑے ہوئے ہو۔ اگر کرسکتے ہو تو کرو کیونکہ یہی علم ہے"۔ (سیر أعلام النبلاء : 3؍222)
9۔امن کا بگاڑ
ملک اور وطن میں امن واستقرار بھی اﷲ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے جو اس نے اپنے بندوں کو عطا کر رکھا ہے، اور اس امن کی نعمت کو بارہا یاد بھی دلایا ہے، تاکہ اس کے بندے اس کی اس نعمت پر اس کا شکر وسپاس بجا لائیں۔ارشاد باری ہے :﴿ فَلْیَعْبُدُوا رَبَّ ہَذَا الْبَیْتِ ٭ الَّذِیْ أَطْعَمَہُم مِّن جُوْعٍٍ وَّآمَنَہُم مِّنْ خَوْفٍ ﴾ (سورہ قریش )ترجمہ : انہیں چاہئے کہ وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں، جس نے انہیں بھوک دور کرنے کے لئے کھانا دیا اور خوف سے امن عطا کیا۔
امن کی نعمت انسانی ضروریات میں سے ایک ضرورت،اور شریعت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے۔ نعمت امن کی وجہ سے ہی بندہ اپنے رب کی عبادت کرتا، اور اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کرسکتا ہے۔ اسی نعمت کے ذریعے سے ہی طالب علم پڑھتا ہے،داعی،دعوت کا کام کرتا ہے، اور ہر کوشش کرنے والا دنیا اور آخرت میں جو چیزیں اس کے لئے موجب سعادت ہیں، اس کے حصول کے لئے کوششیں کرتا ہے۔ امن سے ہی روح کو اطمینان اور دل کو چین وسکون نصیب ہوتا ہے، اور اسی سے لوگ اپنی دینی ودنیوی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں۔
لیکن جب امن تباہ وبرباد ہوجائے تو پھر ناحق خون بہے گا۔فتنے