کتاب: فتنوں میں مومن کا کردار - صفحہ 21
یَارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ! وَہَلْ بَعْدَ ہٰذَا الشَّرِّ مِنْ خَیْرٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ، وَفِیْہِ دَخَنٌ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہم پہلے جاہلیت اور برائی میں تھے، اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر عطا کیا۔ کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہوگا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ہوگا۔میں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اس شر کے بعد بھی کوئی خیر ہوگا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ہوگا، لیکن اس میں کدورت ہوگی۔بعض روایتوں میں ہے :مصالحت ہوگی لیکن کدورت کے ساتھ۔ اور ایک روایت میں ہے : کہ دل پہلی جیسی حالت پر نہیں لوٹیں گے۔
آج بالکل یہی حالت ہے کہ فتنوں کی آگ نے اسلامی اخوت کو تار تار کردیا ہے اور مسلمان ﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ﴾ کا درس بھول چکے ہیں۔ آج ایک مسلمان کو ذلیل کرنے والا، حقیر جاننے والا، اس پر ظلم ڈھانے والا، بلکہ اسے ظالم کے حوالے کرنے والا اور سب سے بڑھ کر اسے قتل کرنے والا بھی ایک مسلمان ہی ہے اور انہوں نے یہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھلا دیا ہے : " اَلْمُسْلِمُ أَخُ الْمُسْلِمِ، لَا یَخْذُلْہُ وَلَا یَظْلِمُہُ وَلَا یَحْقِرُہُ، بِحَسْبِ امْرَیٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ۔(مسلم :3564) ترجمہ : ایک مسلمان، دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اسے ذلیل نہیں کرسکتا، اس پر ظلم نہیں کرسکتا اور اسے حقیر نہیں جان سکتا۔ کسی شخص کے برے ہونے کے لئے بس یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔
8۔قتل وغارت گری پر جراء ت
فتنوں کی تباہی وبربادی کا ایک بڑا ذریعہ خون مسلم کی ارزانی اور قتل وغارت گری پر لوگوں کی جراء ت وبے باکی، اور ایک دوسرے کے خون کو حلال سمجھنا ہے۔ جیسا کہ سیدنا عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : " فِی الْفِتْنَۃِ لَا تَرَوْنَ الْقَتْلَ شَیْئًا" ( أحمد :4871) فتنوں کے دور میں تم لوگ قتل کو گناہ نہیں سمجھو گے۔
ایک شخص نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ آپ مجھے مکمل علم لکھ کر روانہ فرمائیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں جواب میں لکھا : إِنَّ الْعِلْمَ