کتاب: فتنوں میں مومن کا کردار - صفحہ 20
اورکبھی جس کایہ اثر تھا کہ صحرائے نجدوحجاز اور وادیٔ نیل وفرات میں کسی مسلمان کے پیر میں کانٹا بھی چھبتا تو ہندوستان کا مسلمان اسے اپنے دل میں محسوس کرتا تھا اور عرب و افریقہ کے مسلمان بخارا وتاشقند کے کلمہ گو بھائیوں کی ادنیٰ سی تکلیف پر تڑپ اٹھتے تھے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اگر فلسطین وشام میں کسی مسلمان کے سینے پر گولی چلتی ہے تو مشرق بعید انڈونیشیا اور جاپان کا مسلمان اس وقت تک مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ اس کا درد اپنے سینے میں محسوس نہ کرے اور اسی طرح ترکی، یورپ اور امریکہ کا مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ برما کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر تڑپ نہ اٹھے۔ بقول امیرمینائی :
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔
لیکن برا ہو ان فتنوں کا، انہوں نے اسلامی معاشرے کی بے مثال محبت اور اخوت کی مضبوط کڑیوں کو توڑ توڑ کر رکھ دیا۔ بلکہ مسلمانوں کے اندر آپسی حسد، بغض، نفرت اور عداوت کے بیج بوئے،اور انہیں مختلف فرقوں میں بانٹ دیا، ان کے درمیان قومی، قبائلی،لسانی، علاقائی اور مسلکی تعصب وتنگ نظری پیدا کردیا، جس کا اثر یہ ہے کہ اگر کہیں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے تو عام مسلمانوں کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بلکہ بہت سی کمینہ روحیں خوش ہوتی ہیں کہ جو کچھ ہوا اچھا ہوا، اس لئے کہ وہ ہمارے مسلک ومذہب کے نہیں تھے۔ یہ بالکل وہی صورت حال ہے جس کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ آپ سے خیر اور بھلائیوں کے متعلق پوچھتے تھے اور میں آپ سے شر اور برائیوں کے متعلق اس خدشے کی بنا پوچھا کرتا تھا کہ کہیں میں اس میں گرفتار نہ ہو جاؤں۔ میں نے کہا :
یَارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ! إِنَّا کُنَّا فِیْ جَاہِلِیَّۃٍ وَشَرٍّ، فَجَائَ نَا اللّٰہُ بِہٰذَا الْخَیْرِ، فَہَلْ بَعْدَ ہٰذَا الْخَیْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ : نَعَمْ۔ فَقُلْتُ :