کتاب: فتنوں میں مومن کا کردار - صفحہ 16
عشرۂ مبشرہ میں ہوتا ہے اور جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں، فاتح عراق اور کوفہ کے گورنرتھے اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والے معرکوں سے بالکل الگ تھلگ رہے ) کا واقعہ ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے امام إبن سیرین کہتے ہیں : کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کہا گیا :کیا آپ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والی جنگوں میں حصہ نہیں لیں گے ؟ جب کہ آپ اہل شوریٰ میں سے ہیں اور دوسروں کی بنسبت خلافت کے زیادہ مستحق ہیں ؟آپ نے فرمایا : " لَا أَقَاتِلُ حَتّٰی تَأتُوْنِیْ بِسَیْفٍ لَہُ عَیْنَانِ وَلِسَانٌ وَشَفَتَانِ،یَعْرِفُ الْمُؤمِنَ مِنَ الْکَافِرِ، إِنْ ضَرَبْتُ مُسْلِمًا نَبَّأَ عَنْہُ لَا یَقْتُلُہُ، وَإِنْ ضَرَبْتُ کَافِرًا قَتَلَہُ۔ثُمَّ قَالَ : فَقَدْ جَاہَدْتُ وَأَنَا أَعْرِفُ الْجِہَادَ "میں اس وقت تک ان معرکوں میں شرکت نہیں کروں گا جب تک کہ تم مجھے کوئی ایسی تلوار نہ دو، جس کی دو آنکھیں، ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں اور جو مومن اور کافر کو پہنچاتی ہو۔پھر فرمایا : میں نے جہاد کیا اور میں اس کے معنی ومفہوم سے خوب واقف تھا۔
لیکن یہ جنگیں جس میں دونوں طرف سے مسلمانوں کے سر کٹیں، اور وہ ایک دوسرے کو قتل کریں، اس میں میں اس وقت تک شریک نہیں ہوسکتا جب تک تم مجھے مذکورہ صفات والی تلوار لاکر نہ دو۔
پھر ایک عجیب مثال دیتے ہوئے فرمایا :
" ہماری اور تمہاری مثال اس قوم کی طرح ہے، جو ایک روشن راہ پر تھی اور وہ اسی پر گامزن تھی کہ اتنے میں گرد وغبار کا ایک طوفان اٹھا اور اسی میں وہ راستہ بھٹک گئی۔ گرد وغبار کی وجہ سے راستہ اس پر مشتبہ ہوگیا، ان میں سے کچھ نے کہا کہ راستہ دائیں طرف ہے، وہ ادھر لپکے اور بھٹک گئے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ راستہ بائیں جانب ہے، وہ اس پر چل پڑے اور گمراہ ہوگئے۔باقی لوگوں نے کہا کہ جس وقت آندھی چلی تھی تو اس وقت ہم شاہراہ پر تھے، ہم اسی جگہ