کتاب: فتنوں میں مومن کا کردار - صفحہ 13
دین قائم کرسکے اور نہ ہی دنیا آباد کرسکے۔ ( سیر أعلام النبلاء : ج 8 ترجمہ: حکم بن ہشام )
4۔شیخ الإسلام امام إبن تیمیہ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں :"ہٰکَذَا کَانَ عَامَّۃَ السَّابِقِیْنَ نَدَمُوْا عَلٰی مَا دَخَلُوْا فِیْہِ مِنَ الْقِتَالِ "۔ترجمہ : اور یہی حال ان تمام لوگوں کا ہوا جو ان سے پہلے اس طرح کی لڑائیوں میں شریک ہوئے تھے، اپنی شرکت پر شرمندہ ہوئے۔
5۔امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ، ان لوگوں کے متعلق فرماتے ہیں جو عبد الرحمن بن اشعث کے فتنہ میں نکلے تھے :" لَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِّنْہُمْ قُتِلَ إِلَّا قَدْ رَغِبَ لَہُ عَنْ مَصْرِعِہِ، وَلَا نَجَا مِنْہُمْ أَحَدًا إِلَّا حَمِدَ اللّٰہَ الَّذِیْ سَلَّمَہُ" (تاریخ خلیفہ بن خیاط :76) ترجمہ : میں ان کسی شخص کو نہیں جانتا جو اسمیں مارا گیا ہو تو اس کی خواہش تھی کہ وہ یہاں نہ مارا جاتا۔ اور جو بھی قتل سے بچا تو اس نے اپنے نجات پانے پر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
6۔ زبید بن حارث الیامی، ان لوگوں میں سے تھے جو إبن اشعث کے فتنہ میں شریک تھے، لیکن قتل سے بچ گئے تھے۔ محمد بن طلحہ کہتے ہیں :
" رَآنِیْ زُبَیْدُ مَعَ الْعَلَائَ بْنِ عَبْدَ الْکَرِیْمِ وَنَحْنُ نَضْحَکُ۔ فَقَالَ : لَوْ شَہِدْتَ الْجَمَاجِمَ مَا ضَحِکْتَ۔ثُمَّ قَالَ : وَلَوْ وَدِدْتُ أَنَّ یَمِیْنِیْ قُطِعَتْ مِنَ الْعَضُدِ وَلَمْ أَکُنْ شَہِدْتُ ذٰلِکَ۔ وَلَمَّا دُعِیَ إِلیٰ فِتْنَۃِ زَیْدَ بْنِ عَلِیٍّ فَقَالَ : مَا أَنَا بِخَارِجٍ إِلَّا مَعْ نَبِیٍّ وَمَا أَنَا بِوَاجِدِہِ۔
ترجمہ :مجھے زبید بن حارث نے علاء بن عبد الکریم کے ساتھ ہنستے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اگر تم معرکۂ جماجم میں شریک ہوئے ہوتے تو کبھی نہیں ہنستے۔پھر کہا : میری خواہش ہے کہ میرا ہاتھ بازو سے کاٹ دیا جاتا توبہتر تھا لیکن میں اس معرکہ میں شریک نہ ہوتا۔ جب انہیں زید بن علی کے فتنہ کی طرف بلایا گیا تو کہا : اب تو میں کسی نبی کے ساتھ ہی خروج کرسکتا ہوں لیکن اب تو نبی نہیں ملیں گے۔