کتاب: فتنوں میں مومن کا کردار - صفحہ 12
صفحات گواہ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور بنو امیہ کے دور میں خوارج نے سر اٹھایا، اس بغاوت نے نہ صرف انہیں نقصان پہنچایا بلکہ ان کا عبرت ناک خاتمہ ہوگیا۔ شیخ الإسلام امام إبن تیمیہ رحمہ اﷲ، جنکی اسلامی تاریخ میں ان کے دور تک اٹھنے والے تمام فتنوں پر گہری نظر ہے، اپنی کتاب " منہاج السنۃ " میں ان تمام فتنوں کا جائزہ لیکر فرماتے ہیں :
" قَلَّ مَنْ خَرَجَ عَلٰی إِمَامِ ذِی السُّلْطَانِ إِلَّا کَانَ تَوَلَّدَ عَلٰی فَعْلِہِ مِنَ الشَّرِّ أَعْظَمَ مِمَّا تَوَلَّدَ مِنَ الْخَیْرِ "ترجمہ : کہ جس نے بھی کسی اقتدار والے امام (خلیفہ یا بادشاہ) کے خلاف خروج کیا تو اس نے اپنی اس حرکت سے خیر کی بنسبت شر زیادہ پیدا کیا۔
پھر کئی فتنوں کی مثال دیتے ہوئے آپ نے فرمایا :" فَلَا أَقَامُوْا دِیْنًا وَلَا أَبْقُوْا دُنْیَا " ( منہاج السنۃ :4؍527۔8) ترجمہ : نہ تو انہوں نے دین قائم کیا اور نہ ہی دنیا کو باقی رکھ سکے۔
1۔ عبد الرحمن بن اشعث کے فتنے میں جن حفاظ قرآن نے امام حسن بصری رحمہ اللہ کی خیر خواہی کو ٹھکرایا وہ اپنے بد ترین انجام کو پہنچے۔
2۔یہی حال ان لوگوں کا ہوا جنہوں نے فتنۂ خلق قرآن کے زمانے میں امام أہل السنۃ سیدنااحمد بن حنبل رحمہ اللہ کی نصیحت کو ٹھکرایا اور معتصم کی افواج کا مقابلہ کیا اور پھر سارے کے سارے کھیت رہے۔
3۔اندلس میں حکم بن ہشام بن عبد الرحمن الداخل الأموی، علمائے کرام کا قدر دان اور علم سے محبت کرنے والا بادشاہ تھا، اسکے زمانۂ حکومت میں اندلس میں علمائے کرام کی بہتات ہوگئی، صرف قرطبہ میں ہی چار ہزار سے زیادہ علمائے کرام اور طلبۃ العلم موجود تھے۔حکم بن ہشام کی اس قدر علم دوستی کے باوجود علمائے کرام نے اس کی بعض بدعملیوں کی سر عام نکیر کرنی شروع کردی، پھر اس کو تخت سے اتارنے کے لئے ایک لشکر تیار کیا، ایک شخص کو خلافت کے لئے کھڑا کیا اور اندلس میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک عظیم فتنہ برپا کیا اور اس طرح اپنی بربادی کے سارے اسباب انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اکٹھے کرلئے،لیکن جس شخص کو انہوں نے خلافت کے لئے نامزد کیا تھا وہ اندر سے خلیفۂ وقت سے ملا ہوا تھا، اس نے علمائے کرام کی تمام سازشوں کی خبر خلیفہ کو کردی۔ پھر جب افواج شاہی سے ان کا مقابلہ ہوا تو ان کی اکثریت قتل کردی گئی، کچھ بھاگ کھڑے ہوئے اور جو ملے وہ قیدی بنالئے گئے۔ اس طرح وہ اپنے اس فتنہ سے نہ