کتاب: فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان - صفحہ 92
ہو گیا ہو۔ سنن اور آثار کو پہچاننے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو پہچاننے میں جس کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیتے تھے اور جس سے منع فرماتے تھے ، جس بات کی خبر دیتے تھے، جس کی طرف بلاتے تھے، جس چیز کو پسند کرتے تھے اور جس چیز کو بُرا سمجھتے تھے اور جس کی امت کو تعلیم دیتے تھے ان سب کو جاننے میں اسے شدید اختصاص و مہارت حاصل ہو گئی ہو کہ گویا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملاہوا ہے، اس قسم کا انسان، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال، ہدایت کلام اور اقوال وافعال کو جانتا ہے‘‘[1]۔
ابن دقیق العید نے اسی ملکہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
كثيرما یحکمون بذالك ای بالوضع باعتبار امور ترجع الي المروی والحاصل انهم لکثرة مما رستهم لالفاظ الحدیث حصلت لهم هیئة نفسانیة وملکة قویة یعرفون بها ما یجوزان یکون من الفاظ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم وما لا یجوز [2]
محدثین بسااوقات کسی روات کے موضوع ہونے کا فیصلہ روایت کے احوال کی بنا پر کرتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ الفاظ حدیث سے بکثرت مناسبت و ممارست ہونے کی وجہ سے ان کو ایک روحانی ہئیت اور قوی ملکہ حاصل ہو جاتا ہے جس کے ذریعے وہ پہچان لیتے ہیں کہ کون سے الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہو سکتے ہیں اور کونسے نہیں۔
ابن عساکر نے لکھا ہے کہ عباسی خلیفہ ہارون رشید کے دربار میں ایک شخص وضع حدیث کے جرم میں گرفتار کر کے لایا گیا تو تو ہارون الرشید نے ا سے قتل کردینے کا حکم دیدیا اس پر مجرم نے عرض کیا کہ اگر آپ نے مجھے قتل کر دیں گے تو ان چار ہزار روایات کی نشاندہی کون کرے گا جن کو میں نے وضع کر کے عوام میں رائج کر دیا ہے۔ ان روایات میں میں نے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دیاہے۔ اس پر خلیفہ نے کہا کہ عبداللہ بن مبارک اور ابن اسحاق الغزاری حرف حرف الگ الگ دیں گے‘‘[3]۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ رب العزت کے فیضان سے براہِ راست تربیت پانے والی اور اس کی رہنمائی اورنورِ ہدایت سے بلاواسطہ منور ہونے والی شخصیت کے قول و فعل اور فکر و خیال میں جو بلندی ہو گی وہ کسی اور کے اندر نہیں ہو سکتی اسی طرح ایسی ذات کی لسان صدق مقال اور اس
مزید صفحات پر کام جاری ہے
[1] المنار المنیف ص۴۴، موضوعات کبیر ص۱۰۳
[2] السنۃ ومکانتہا ف التشریع الاسلامی ص۱۱۵
[3] تہذیب التہذیب ۱/۱۵۲