کتاب: فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان - صفحہ 91
مطابق مدون ہوں۔ مولانامودودی لکھتے ہیں کہ: ’’جس وقت سے جعلی احادیث ظاہرہونی شروع ہوئیں اسی وقت سے محدثین اور ائمہ مجتہدین اور فقہاء نے اپنی تمام کوششیں اس بات پر مرکوز کر دیں کہ یہ گندا نالہ اسلامی قوانین کے سوتوں میں نفوذ نہ کرنے پائے۔ ان کوششوں کازیادہ تر زوران احادیث کی تحقیقات پر صرف ہوا ہے جن سے کوئی شرعی حکم ثابت ہوتا تھا‘‘[1]۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حلال و حرام اور سنن و احکام سے متعلق روایت کرتے ہیں تو اسناد میں سختی برتتے ہیں اور جب فضائلِ اعمال سے متعلق روایت کرتے ہیں تو اسناد میں نرمی برتتے ہیں‘‘[2]۔ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت اور شبانہ روز کی مناسبت نے ان کے اندر اتنا ملکہ پیدا کر دیا تھا کہ ان کے سامنے جب کوئی روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو کر آتی تو ان کو اس کی صحت اور سقم کااندازہ ہو جاتا جس طرح ایک جوہری کسی پتھر کو دیکھ کر اس کے ہیرا یا خزف ریزہ ہونے کا اندازہ اس ملکہ کی بنا پر کر لیتا ہے جسے وہ مدتوں اس میدان میں لگانے کے بعد حاصل کرتا ہے۔ یہی معاملہ مدثین کرام کا احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتا ہے گویا ان کے رگ و ریشہ میں حدیث کی خوشبو بسی ہوتی ہے۔ ان کے رگ و پے میں خون کی طرح گردش کرتی ہے اور ان کے فکر و خیال پر حدیث ہی حدیث چھائی ہوتی ہے اور ایسے ہی لوگ دامانِ حدیث کو موضوعات کے بدنما داغوں سے بچا سکتے ہیں اور کذابوں سے فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ سند کو دیکھے بغیر کسی موضوع حدیث کو کسی قاعدہ سے جان لینا ممکن ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ: ’’یہ بڑے مرتبہ کا سوال ہے یہ وہی شخص جان سکتا ہے جوسنن پر حاوی ہو اور اس کے خون گوشت میں وہ مخلوط ہو گئی ہوں ا ور ان پر اسے ملکہ حاصل
[1] سنت کی آئینی حیثیت ص۳۴۳ [2] کتاب الکفایۃ فی علم الروایہ ص ۱۷۸