کتاب: فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان - صفحہ 7
آگ کو بھڑکنے کا اس وقت مزید موقع ملا جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں جنگ صفین ہوئی اور لوگ تین گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ شیعوں کا تھا اور دوسرا خوارج کا تیسرے گروہ کا تعلق عام مسلمانوں سے تھا۔
علمائے اسلام کی واضعین کے مقابلہ میں جو مساعی ہیں وہ قابلِ قدر ہیں۔ انہوں نے ایسے اصول و قواعد مرتب کئے اور موضوع احادیث کی ایسی علامتیں بتائیں جن سے موضوع احادیث کے پہچاننے میں بڑی آسانی ہوتی ہے انہوں نے اس کے لئے عملی و نظری دونوں طریقے اختیار کئے۔ اس کے علاوہ موضوع احادیث پر مشتمل کتابیں لکھی گئیں تاکہ لوگ ان احادیث سے باخبر ہو جائیں جن کی کوئی اصل نہیں اور جو دین کے مسلمہ اصولوں سے ٹکراتی ہیں۔
ان تمام قابلِ قدر مساعی کے باوجود آج مسلمانوں میں کتنی ہی ایسی چیزیں حدیث کے نام سے مشہور ہیں جو حقیقت میں موضوع ہیں، ان کی کوئی اصل نہیں۔ اس طرح کی بعض موضوع حدیثیں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کی زبانوں پر آجاتی ہیں اور انہیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ جو چیز حدیث کے نام سے بیان کر رہے ہیں وہ فی الواقع حدیثِ رسول نہیں ہے۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر ضرورت تھی کہ اردو زبان میں کوئی ایسی کتاب شائع ہو جس سے لوگوں کو تنبہ ہو اور وہ احادیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں بے احتیاطی سے بچ سکیں۔
مجھے توقع ہے کہ مولانا مسعود عالم قاسمی صاحب کی یہ کتاب جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے اس سلسلہ میں نہایت مفید ثابت ہو کی۔ اس کتاب کے مطالعہ سے بالتفصیل معلوم ہو سکے گا کہ فتنہ وضع حدیث کے اصلاً خارجی اور داخلی اسباب کیاتھے؟ اس فتنہ کے سد باب کے سلسلہ میں علماء و محدثین کرام کی مساعی کیا کر رہی ہیں؟ اور موضوع احادیث اپنی کن علامتوں کے ذریعے سے بآسانی پہچانی جا سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ موصوف کی اس سعی کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور لوگوں کو اس سے وہ فائدہ پہنچائے جس کی ہم توقع رکھتے ہیں۔
خاکسار محمد فاروق خاں
۲۴ نومبر ۱۹۸۶ء