کتاب: فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان - صفحہ 40
یہ تعریف اگرچہ شرفِ صحابیت کی عظمت کی حفاظت کے پیشِ نظر کی گئی ہے ، مگر اس سے وائل بن حجر، مالک بن حویرث اور عثمان بن ابی العاص جیسے صحابہ نکل جاتے ہیں کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد کے ساتھ آئے اورپھر چلے گئے چنانچہ مازری کی یہ تعریف مکمل نہیں۔
مذکورہ صفات کے حامل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم باوجودیکہ حدیث کی تعلیم و اشاعت میں غیر معمولی دلچسپی لیتے تھے اور اس کو حاصل کرنے اور حرزِ جان بنانے میں بڑی محنت اور جانفشانی سے کام لیتے تھے مگر بالمعموم وہاسے بیان کرنے اور قبول کرنے میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے مبادا کوئی بات ایسی آ پ صلی اللہ علیہ وسلم طر ف منسوب نہ ہو جائے جو فی الواقع آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہ فرمائی ہو۔ چنانچہ مالک بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
"انه ليمنعني ان احدثكم حديثا كثيرا ان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال من تعمد علي كذبا فليتبوأ مقعده من النار [1]"
’’مجھے بکثرت حدیث بیان کرنے سے جو چیز روکتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جان بوجھ کر جھوٹ میری طرف منسوب کیا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنا لے‘‘۔
سیدنا ابوزبیر سے جب یہ پوچھا گیا کہ دوسرے لوگ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتے ہیں اور آپ نہیں کرتے تو انہوں نے جواب دیا واللہ! میرے بیٹے! جب سے میں اسلام لایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہیں ہوا مگر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ "من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار"[2] ’’جس نے جان بوجھ کر جھوٹ میری طرف منسوب کیا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنالے‘‘۔عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ:
"ادركت في هذا المسجد عشرين ومائة من الانصار وما منهم من يحديث بحديث لاودان اخاه كفاه "[3]
’’میں نے اس مسجد (کوفہ) میں ایک سو بیس صحابی انصار ایسے دیکھے جو حدیث بیان نہیں
[1] مسلم، ترمذی، نسائی و ابن ماجہ
[2] کتاب الکفایۃ ص ۱۳۵
[3] سنن دارمى