کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 99
اور ہر موقع پر بہ تکرار و بہ اصرار یہ کہتے ہیں اور مسلسل کہہ رہے ہیں کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ وحیِ خفی کے ذریعے سے بھی کوئی ایسا حکم دے سکتے ہیں، جو قرآن میں نہیں ہے، وہ اسے قرآن میں تغیر و تبدل قرار دیتے ہیں، لیکن یہاں بالآخر یہ کہنے اور اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ رجم کا فراہی گروہ کا ساختہ پر داختہ نظریہ وحیِ خفی کے ذریعے سے آپ نے بیان فرمایا ہے۔ پہلے وحیِ خفی کا انکار تھا، اب اپنی بات منوانے کے لیے اسی کا سہارا لے رہے ہیں، چہ خوب ؎ اُلجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں لو آپ اپنے دام میں صیّاد آگیا گویا اُمتِ مسلمہ اگر یہ کہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحیِ خفی کے ذریعے سے قرآن میں بیان کردہ سزا کو کنواروں کے ساتھ خاص کر دیا ہے اور شادی شدہ زانیوں کے لیے رجم کی سزا مقرر فرمائی ہے تو یہ قرآن میں تغیر و تبدل ہے، جس کا حق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں ہے۔ حالاں کہ وحیِ خفی کی یہ روایاتِ رجم تقریباً تین درجن صحابہ سے مروی ہیں، لیکن غامدی صاحب پہلے تو مانتے ہی نہیں تھے کہ وحیِ خفی سے بھی آپ کوئی حکم دے سکتے ہیں، لیکن جب اس بات کو مانا تو وحیِ خفی کس کو قرار دیا؟ اپنے خود ساختہ امام کے خود ساختہ مفہوم پر خود ساختہ نظریۂ رجم کو؟ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ کتنا بڑا اتہام ہے جو اس ظالم شخص نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر باندھا ہے۔ {سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ} ؎ تغافل سے جو باز آیا جفا کی تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی غامدی صاحب اہلِ اسلام کے نظریۂ رجم کی درجنوں روایات کو تو تسلیم