کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 97
سزا ہے نہ کہ حدِّ شرعی، اور یہ شادی شدہ زانیوں کو نہیں، بلکہ اوباش قسم کے زانیوں کے لیے ہے اور وہ بھی وقت کے حکمران کی صواب دید پر منحصر ہے۔ اس کی دلیل کوئی حدیث نہیں، کیوں کہ وہ تو ویسے ہی ان کے نزدیک غیر معتبر ہے۔ صرف ان کے امامِ اول کا قرآن کے لفظ ’’تقتیل‘‘ سے استنباط ہے، جس استنباط کی کوئی تائید کسی مفسر، محدث، فقیہ، امام نے نہیں کی، اور عربی لغت اور عرب کے دیوانِ جاہلیت سے بھی اس معنی کی تائید نہیں ہوتی۔ اس کی تائید صرف ان کے تلامذہ، پھر تلامذہ کے تلامذہ اور تلامذہ کے تلامذہ کر رہے ہیں!! اُمتِ مسلمہ کا نظریۂ رجم قرآن و حدیث کے ٹھوس دلائل پر مبنی ہے، اسی لیے وہ عہدِ رسالت سے آج تک مسلّم چلا آرہا ہے۔ گویا اس کی عمر چودہ سو سال اور ایک رُبع صدی ہے۔ فراہی نظریۂ رجم یکسر بے دلیل، بلکہ قرآن کی معنوی تحریف اور شریعت سازی پر مبنی ہے اور اس کی عمر ایک صدی سے بھی کم ہے یا زیادہ سے زیادہ ایک صدی سمجھی جا سکتی ہے۔ یہ خود ساختہ نظریہ کسی دلیل پر قائم نہیں ہے، بلکہ اس کی ساری بنیاد ایک استاذ کے سلسلۂ تلمذ، اس کے خوانِ علم کی ریزہ چینی اور اس کی اندھی تقلید پر قائم ہے۔ أعاذنا اللّٰه منھا۔ ع لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا! ہاں، یاد آیا کہ ہم نے غامدی صاحب کی طرف یہ بات منسوب کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحیِ خفی کے ذریعے سے اوباشی کی سزا ’’رجم‘‘ مقرر کی ہے اور اس پر ہم نے ان سے یہ سوال بھی کیا ہے کہ آپ تو وحیِ خفی کے ذریعے سے قرآن میں ’’اضافے‘‘ یا ’’تبدل و تغیر‘‘ کو تسلیم ہی نہیں کرتے تو پھر آپ کی خانہ ساز ’’سزائے رجم‘‘ وحیِ خفی سے کس طرح ثابت ہوسکتی ہے؟ یہ ہمارا سوال