کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 96
جب ان پر یہ واضح کیا گیا کہ ’’تقتیل‘‘ کے لفظ یا اس کے مفہوم میں رجم کسی طرح بھی شامل نہیں ہوسکتا تو بالآخر یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے کہ وحیِ خفی کے ذریعے سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ ’’تقتیل‘‘ کے مفہوم میں رجم بھی شامل ہے۔ لیکن یہاں پھر یہ سوال منہ کھولے سامنے آکھڑا ہوا کہ جنابِ من! آپ تو یہ بات ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم وحیِ خفی سے ایسا کوئی حکم دے سکتے ہیں، جو قرآن میں نہ ہو، آپ کے نزدیک تو ایسا حکم قرآن میں تغیر و تبدل ہے، جس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے تو کیا قرآن کے لفظ ’’تقتیل‘‘ سے رجم مراد لینا، جس کا ذکر قرآن میں نہیں ہے، قرآن میں تغیر و تبدل نہیں ہے؟ یا شریعت سازی نہیں ہے؟ شریعت سازی کا یہ حق صدیق و فاروق کے لیے آپ نہیں مانتے تو آپ کے امامِ اول اور آپ کو شریعت سازی کا یہ حق کیسے حاصل ہوگیا؟ اہلِ اسلام کہتے ہیں کہ قرآن میں زانی اور زانیہ کی جو سزا (سو کوڑے) بیان ہوئی ہے، حدیثِ رسول کی رُو سے وہ کنواروں کی سزا ہے اور شادی شدہ زانیوں کی سزا رجم ہے، جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی ہے اور اس کے مطابق آپ نے رجم کی سزا دی بھی ہے، آپ کے بعد خلفائے راشدین نے بھی یہ سزا دی اور اس کے حدّ شرعی ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے۔ فراہی گروہ، مولانا حمید الدین فراہی سے لے کر مولانا اصلاحی، غامدی اور عمار ناصر تک، سب رجم کی صحیح، متواتر اور متفق علیہ روایات کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ ان احادیث سے حدِّ رجم کا اِثبات قرآن کے خلاف اور قرآن میں ردّ و بدل ہے اور یہ حق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اُمتِ مسلمہ کے اجماع کے برعکس فراہی گروہ کہتا ہے کہ رجم ایک تعزیری