کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 95
کی زبان سے سنیے! وہ اپنے خلاف ایک تنقیدی مضمون کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’خود مصنف نے اسے ’’قِیْلَ‘‘ کے ساتھ ذکر کیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کسی مجہول شخص کی رائے ہے، جس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون تھا اور کہاں اس نے یہ معنی بیان کیے تھے۔‘‘[1] اسی طرح حدِ رجم کا معاملہ ہے۔ انھوں نے یا ان کے اکابر نے نظریہ گھڑا کہ یہ شادی شدہ زانی کی حد نہیں ہے، بلکہ ہر قسم کے زانی کی ایک ہی حد ہے اور وہ ہے سو کوڑے۔ چناں چہ انھوں نے اس سے متعلق تمام صحیح روایات کی تغلیط و تردید کو اپنا مشن بنا لیا اور آیتِ محاربہ میں لفظ ’’تقتیل‘‘ سے اوباش قسم کے زانی مرد اور زانی عورت کے لیے رجم کی سزا کا استنباط فرمایا، لیکن ع کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے! کے مصداق بیچارے ہاتھ پیر مار رہے ہیں، لیکن سوائے نامرادی و ناکامی کے کچھ حاصل نہیں ہو رہا اور نہ ۔إن شاء اللّٰه ۔ حاصل ہو گا۔ اس لیے کہ اسلاف اور امت کے اجماع سے ہٹ کر جو بھی اپنی الگ راہ اپنائے گا، ذلت و رسوائی کے سوا اس کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ {وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا} [النساء: ۱۱۵] ’’اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے، ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے، جس طرف وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے۔‘‘ چناں چہ رجم کے بارے میں غامدی صاحب کی بیچارگی قابلِ دید ہے۔
[1] برہان (ص: ۲۸۴)