کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 86
کی گئی ہے۔ اس کے برعکس گناہوں اور معصیت کاری سے جو فساد فی الارض رونما ہوتا ہے، اس کی نوعیت حرابے کے فساد سے یکسر مختلف ہے، اسی لیے شریعت نے ان دونوں فسادوں کا حکم ایک ہی بیان نہیں کیا ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ سوال ہے کہ محاربہ کی سزا ’’رجم‘‘ آج تک اس گروہ سے پہلے کسی نے بیان کی ہے؟ یہ کہنا کہ تقتیل مبالغے کا صیغہ ہے، جس کا مطلب ہے برے طریقے سے قتل کرنا، اس لیے رجم بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے، لیکن یہ گروہ عرب کے جاہلی ادب کو قرآن فہمی میں سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ جاہلی ادب سے کوئی ایک مثال پیش کر کے دکھائیں کہ کسی شاعر نے یا کسی بڑے ادیب نے ’’تقتیل‘‘ کو رجم کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ محض ایک گروہ کے تحکم اور دھاندلی سے تو ’’تقتیل‘‘ کا معنی رجم نہیں ہوسکتا۔ یہ قرآن کا لفظ ہے جسے چودہ سو سال سے علما، فقہا اور ائمہ محدثین پڑھتے، اس کی تفسیر و وضاحت کرتے آئے ہیں، آخر کس نے اس کا معنی رجم کیا ہے؟ یا یہ کہا ہے کہ اس کے مفہوم میں رجم بھی آسکتا ہے؟ اسی طرح یہ عربی زبان کا لفظ ہے، عربی لغت میں، عرب کے اہلِ کلام میں، عرب کے دیوانِ جاہلیت میں اس کا معنی کسی نے رجم کیا ہے یا رجم کو اس کے مفہوم میں شامل کیا ہے؟ پھر ان سب سے بڑھ کر یہ سوال ہے کہ قرآن میں معنوی تحریف کر کے شریعت سازی کا حق اس گروہ کو کس طرح حاصل ہوگیا ہے؟ {اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا} [المائدۃ: ۳۳] کے مفہوم میں رجم کو شامل کرنا، قرآن میں تحریفِ معنوی ہے اور اس تحریفِ معنوی کی بنیاد پر اسلام میں اوباشی اور آوارہ منشی کی ایک نئی سزا مقرر کرنا، شریعت سازی نہیں ہے تو کیا ہے؟ اسے تشریح و تفسیر تو نہیں کہا جا سکتا، کسی لفظ کی تشریح میں ایک شرعی حکم کا ایجاد کرنا، تشریح نہیں، شریعت سازی کہلائے گا۔