کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 77
کی رسائی ہی نہ ہوسکے۔ لیکن تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ الحمد ﷲ ہم نے اﷲ کی دی ہوئی بصیرت سے دونوں پیروں میں انکارِ حدیث کا جو جرثومہ چھپا ہوا تھا، دریافت کر لیا۔ واقعہ یہ ہے کہ دونوں پیرے بظاہر قرآن کی عظمت کے مظہر ہیں، لیکن درحقیقت اس میں حاملِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے اس منصبِ رسالت کا انکار ہے، جو اﷲ نے تبیینِ قرآنی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا ہے، جس کی رُو سے قرآن میں بیان کردہ حدِ رجم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنواروں کے لیے مخصوص قرار دیا اور شادی شدہ زانیوں کے لیے حدِ رجم کا حکماً بھی اثبات فرمایا اور عملاً اس کو نافذ بھی فرمایا۔ اسی طرح دیگر کئی عمومات میں آپ نے تخصیص فرمائی اور پوری امت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس منصبِ قرآنی کے تحت آپ کی تمام تخصیصات کو قبول کیا، انھیں نہ قرآن کے خلاف سمجھا اور نہ قرآن سے تجاوز۔ بھلا ایک پیغمبر کلامِ الٰہی میں اس طرح کا تصرف کس طرح کر سکتا ہے، جو کلامِ الٰہی کے منشا کے خلاف یا الفاظِ قرآنی کی دلالت کے منافی ہو؟ حدِ رجم اﷲ کا حکم ہے: اﷲ تبارک و تعالیٰ نے تو واضح الفاظ میں اپنے پیغمبر کے بارے میں فرمایا ہے: {وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ 0 لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ 0 ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ} [الحاقۃ: ۴۴۔ ۴۶] ’’اگر وہ ہم پر کچھ باتیں گھڑ کر لگا دیتا تو ہم اس کے دائیں ہاتھ کو (یا دائیں ہاتھ کے ساتھ) پکڑ لیتے، پھر ہم اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔‘‘ یہ اﷲ نے کوئی اصول بیان نہیں کیا ہے، بلکہ خاص رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت بتلایا ہے کہ اگر یہ کوئی بات اپنی طرف سے گھڑ کر ہماری طرف منسوب کر