کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 74
ہے۔ پیغمبرِ اسلام کی تبیینِ قرآنی یا بالفاظِ دیگر، قرآنی عموم کی تخصیص، قرآن میں تغیر و تبدل یا ترمیم و تنسیخ نہیں ہے، بلکہ یہ آپ کا وہ منصب ہے، جو اﷲ نے آپ کو دیا اور آپ نے اس کے مطابق یہ تخصیصات کیں۔ ان کو قرآن میں ’’ترمیم و تغیر‘‘ کہنا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اور سراسر فریب ہے ع دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا علاوہ ازیں اس اقتباس میں وحیِ خفی کا بھی انکار ہے، جس کی روشنی ہی میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے اجمالات کی تفصیل اور عمومات کی تخصیص کی ہے۔ ورنہ اس کے بغیر تو قرآن ایک چیستاں، ناقابلِ عمل اور لا ینحل معما بنا رہتا۔ نماز، زکات، حج و عمرہ وغیرہ بیسویں احکام ہیں، جن کا حکم قرآن میں ہے۔ ان کی جو تفصیل اور شکل و ہیئت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے اور جن پر چودہ سو سال سے امت عمل پیرا ہے، اس کی بنیاد وحی جلی (قرآن) کے علاوہ اس وحیِ خفی ہی پر ہے۔ اگر اس وحیِ خفی کی کوئی حقیقت نہیں ہے تو آپ کی شرح و تفصیل کی بنیاد کیا ہے؟ اور یہ شرح و تفصیل اگر نہ ہو تو قرآنی احکامات پر کس طرح عمل کیا جائے گا؟ اگر کہا جائے کہ امت کا تواتر عملی، قرآن پر عمل کے لیے کافی ہے، پیغمبر کی شرح و تفصیل ضروری نہیں تو اس سے زیادہ غیر معقول کوئی بات نہیں۔ آخر تواتر کی بنیاد کیا ہوگی؟ اولین دور کے مسلمانوں کا عمل ہی بنیاد ہوگی اور اولین دور کے مسلمانوں نے کیا یہ اعمال خود قرآن سے سمجھ کر سر انجام دیے تھے یا کسی سمجھانے والے کے کہنے کے مطابق انجام دیے تھے؟ یہ سمجھانے والا پیغمبر ہی تھا، اس نے وحیِ خفی کی روشنی میں وحیِ جلی (قرآن) کی تفصیلات بیان کیں اور صدرِ اول کے مسلمانوں نے اس کے مطابق یہ کام کیے اور یوں نسلاً بعد نسلٍ یہ