کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 73
کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا۔ دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ اس کی آیاتِ بینات ہی کی روشنی میں ہوگا۔ ایمان و عقیدہ کی ہر بحث اس سے شروع ہوگی اور اسی پر ختم کر دی جائے گی۔ ہر وحی، ہر الہام، ہر القا، ہر تحقیق اور ہر رائے کو اس کے تابع قرار دیا جائے گا اور اس کے بارے میں یہ حقیقت تسلیم کی جائے گی کہ ابو حنیفہ، شافعی، بخاری و مسلم، اشعری و ماتریدی اور جنید و شبلی، سب پر اس کی حکومت قائم ہے اور اس کے خلاف ان میں سے کسی کی کوئی چیز بھی قبول نہیں کی جا سکتی۔‘‘[1] ملاحظہ فرمائیے! بظاہر قرآن کی عظمت کا کیسا وجد آفرین بیان ہے کہ پڑھ کر ایک مسلمان جھوم جھوم اُٹھتا ہے، لیکن اس قند میں چھپی سَمّیت (زہر ناکی) دیکھیے کہ اس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس منصبِ رسالت پر نقب زنی ہے جس کی رو سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے بہت سے عموم میں تخصیص کی ہے، جس کی مثالیں ہم مضمون کے آغاز میں بیان کر چکے ہیں اور جن کو تمام صحابہ و تابعین سمیت پوری امت کے ائمہ اعلام، محدثینِ عظام اور فقہائے کرام نے تسلیم کیا ہے اور وہ تخصیصات چودہ سو سال سے مسلّم چلی آرہی ہیں۔ موصوف نے ان سب پر نفی کا تیشہ چلا دیا ہے اور اُن کو بیک بینی و دوگوش دین سے خارج کر دیا ہے۔ دوسرے، ستم بالائے ستم، نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تبیینِ قرآنی کو ’’ترمیم و تغیر‘‘ قرار دے رہے ہیں، تاکہ یہ جرعۂ تلخ ہر مسلمان گوارا کر لے کہ ہاں واقعی قرآن میں ترمیم و تغیر کا حق تو کسی کو نہیں ہے، لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ پیغمبر کی یہ قرآنی تبیین کیا یہ قرآن میں تغیر و ترمیم ہے؟ یہ موصوف کی سراسر تلبیس کاری و فن کاری
[1] میزان (ص: ۲۵)