کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 71
اس میں موصوف نے ایک تو یہ کہا ہے کہ حدیث سے حاصل ہونے والا علم کبھی درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا، اس لیے دین میں ان سے کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا۔ اس رائے میں موصوف کو غالباً بعض فقہا کی اس رائے سے سہارا ملا ہے کہ حدیث سے ملنے والے علم سے علمِ ظنی حاصل ہوتا ہے، لیکن ائمہ سلف اور محدثین نے، جن کی بابت غامدی صاحب نے کہا ہے کہ میرا موقف بالکل وہی ہے، جو ائمہ سلف کا ہے، کبھی ایسا نہیں کہا اور بعض فقہا نے جو کہا ہے، اس کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ حدیث موجبِ عمل نہیں ہے، علمِ ظنی کے باوجود حدیث ان کے نزدیک واجب العمل ہے۔ (ملاحظہ ہو: اصولِ بزدوی: ۲/ ۶۹۰، ۶۹۱) یہ آج تک کسی نے نہیں کہا کہ حدیث سے کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ نہیں ہوتا۔ دوسری بات موصوف نے یہ فرمائی ہے کہ دین سے متعلق جو چیزیں حدیثوں میں آتی ہیں، وہ ’’قرآن و سنت میں محصور اسی دین کی تفہیم و تبیین اور اسی پر عمل کے لیے اسوۂ حسنہ کا بیان ہے۔‘‘ اس میں ایک تو احادیث کی دو قسمیں بنا دی گئی ہیں۔ ایک وہ جو دین سے متعلق ہیں اور دوسری وہ جو دین سے متعلق نہیں ہیں۔ اس دوسری قسم میں وہ ڈاڑھی، عورت کا ننگے سر نہ رہنا وغیرہ کو عرب معاشرے کا عرف و عادت قرار دے کر دین سے خارج قرار دیتے ہیں، یعنی غامدی گروپ کے نزدیک یہ چیزیں دین کا حصہ نہیں ہیں، اس لیے ان پر عمل بھی ضروری نہیں ہے۔ رہی دین سے متعلق حدیثیں تو دین ان کے نزدیک قرآن ہے (وہ بھی ان کی سمجھ کے مطابق، نہ کہ ائمہ سلف کے مفہوم کے مطابق) اور دینِ ابراہیمی کی ۲۷ روایات سنت ہیں۔ دین انہی میں محصور ہے۔ ان کے علاوہ کوئی چیز دین نہیں ہے۔