کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 69
کے پاس وہ سلسلۂ سند محفوظ ہے، جو صحابہ کرام سے امام بخاری، امام مسلم اور دیگر محدثین تک پہنچتا ہے۔ اس لیے ہمارا دینِ اسلام، جو قرآن و حدیث پر مشتمل ہے، مکمل محفوظ بھی ہے اور متواتر بھی۔ جسے کتبِ حدیث میں دیکھا جا سکتا ہے، جب کہ دینِ غامدی، صرف غامدی صاحب کے ذہن میں ہے، جس کا وہ کوئی تحریری ثبوت پیش نہیں کر سکتے۔ کتبِ حدیث کا حوالہ پیش کرنے کے وہ قطعاً مجاز نہیں ہیں، اس لیے کہ وہ ہمارے دین کا ماخذ ہیں، ہمارے پیغمبر کے اقوال، افعال اور تقریرات کا وہ مجموعہ ہیں، ان میں درج تمام صحیح احادیث دین ہیں، اس لیے کہ وہ قرآن ہی کا بیان اور ان کی تشریح و توضیح ہے۔ دینِ غامدی، احادیثِ مصطفی نہیں ہے، دینِ ابراہیمی کی روایات ہیں، جن کا کوئی ماخذ و مصدر نہیں۔ یا قرآن کی وہ من مانی تاویل ہے جو سراسر تحریفِ معنوی پر مشتمل ہے۔ ان کا دین صحابۂ کرام اور اُمت کا قرآن نہیں ہے۔ یہ قرآن ہمارا ہے، جس کے اجمال کی تفصیل اور عموم کی تخصیص ہمارے پیغمبر نے کی ہے۔ دینِ غامدی اس قرآن کی تشریح و توضیح کا حق پیغمبرِ اسلام کو نہیں دیتا، اس لیے اس قرآن سے اور اس کے اس پیغمبر سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ گو وہ اس قرآن کو ماننے کا کتنی بھی بلند آہنگی سے اقرار کرے، وہ اسی طرح مردود ہے، جیسے مرزائیوں کا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ماننے کا دعویٰ مردود ہے۔ اس مردودیت کی دلیل ان دونوں کا رویہ اور طرزِ عمل ہے نہ کہ ان کا دعویٰ، کیوں کہ دعوے اور طرزِ عمل میں فرق ہے، دونوں میں مطابقت اور موافقت نہیں، اس لیے فیصلہ طرزِ عمل اور رویے پر ہوگا نہ کہ صرف دعوے پر! جن لوگوں میں منافقت ہوتی ہے یا جراَت کا فقدان ہوتا ہے، وہ زبان