کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 68
اس میں وضاحت طلب امر یہ ہے کہ قولی تواتر اور عملی تواتر میں کیا فرق ہے؟ اور اُن دو اصطلاحوں سے ان کی مراد کیا ہے؟ اگر قولی تواتر سے مراد تمام صحابہ کا تواتر سے یہ کہنا ہے کہ یہ قرآن وہی کتاب ہے، جو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے تو اس قول کی صداقت کے پرکھنے کا طریقہ کیا ہوگا؟ محض دعویٰ کر دینے سے تو مدعا کا اثبات نہیں ہوجاتا، بلکہ دعوے کے ثبوت کے لیے دلائل کا وجود ضروری ہے۔ قولی تواتر کے یہ دلائل کہاں ہیں؟ اگر یہ گروہ کہتا ہے کہ اس کے دلائل کتبِ حدیث میں ہیں تو کتبِ حدیث تو ان کے نزدیک غث و سمین کا مجموعہ ہیں، وہ تو معتبر ہی نہیں ہیں۔ کتبِ تواریخ ہیں، وہ کتبِ حدیث سے بھی زیادہ غیر معتبر ہیں۔ شعرائے عرب کا جاہلی کلام ہے، جو ان کے نزدیک سب سے زیادہ معتبر ہے، لیکن اس میں تو اس امر کے دلائل ملنے سے رہے۔ پھر اس قولی تواتر کا اثبات کس طرح ہوگا؟ اسی طرح ’’مزعومہ سنتوں‘‘ کا معاملہ ہے۔ کہا جا رہا ہے وہ عملی تواتر سے ثابت ہیں۔ لیکن یہاں بھی وہی سوال ہے کہ عملی تواتر کا اثبات کس طرح ہوگا؟ اس دعوے کو کس بنیاد پر پَرکھا جائے گا؟ اس کے لیے کون سی کتاب یا مرجع و ماخذ ہے، جس میں اس کے دلائل درج ہیں؟ ظاہر بات ہے کہ کتبِ حدیث کے علاوہ اس کا کوئی مرجع و ماخذ نہیں ہے اور جب ایسا ہے تو دین صرف غامدی صاحب کی مزعومہ سنتیں نہیں ہیں، بلکہ کتبِ حدیث میں درج تمام صحیح حدیثیں اور اُن سے مستنبط احکام دین ہیں اور یہ تمام سنتیں اور حدیثیں الحمد ﷲ متواتر ہیں، کیوں کہ یہ عہد بہ عہد، نسل در نسل رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر باسند سلسلہ وار مُدوِّنین کتبِ حدیث تک تواتر سے منتقل ہوتی آئی ہیں اور ان مدونینِ کتبِ حدیث سے لے کر آج تک کے علما