کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 65
بعد غسل۔ 13.غسلِ جنابت۔14.میت کا غسل۔ 15.تجہیز و تکفین۔ 16.تدفین۔ 17.عید الفطر۔ 18.عید الاضحی۔ اس فہرست پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ سوائے ایک آیتِ قرآنی: {حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ} [المائدۃ: ۳] کے ترجمے کے، سب وہ احکام ہیں جو احادیث کی کتابوں میں درج ہے، حالاں کہ یہ کتابیں ان کے نزدیک غیر معتبر ہیں، علاوہ ازیں احادیث کی ان کتابوں میں یہ سارے احکام رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرمودہ ہیں۔ ان میں سے کسی ایک حکم کی بابت بھی یہ وضاحت نہیں ہے کہ یہ دینِ ابراہیمی کی وہ روایات ہیں، جن میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح و تجدید یا اضافہ کر کے دین کے طور پر جاری فرمائی ہیں۔ آخر اس دعوے کی دلیل سوائے ایک شخص کی ذہنی اپج یا دماغی اختراع کے کیا ہے؟ ان میں سے بیشتر احکام تو وہ ہیں، جو ہر نبی کی شریعت میں رہے ہیں، جس کی صراحت خود قرآن میں موجود ہے: {شَرَعَ لَکُمَ مِّنْ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ} [الشوریٰ: ۱۳] ’’تمھارے لیے وہی دین اﷲ نے مقرر کیا ہے، جس کا حکم اس نے نوح کو دیا اور وہ جس کی وحی ہم نے آپ کی طرف کی اور وہ جس کا حکم ہم نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ تم دین کو قائم کرو۔‘‘ اس آیت سے واضح ہوا کہ چند جزوی مسائل کے علاوہ تمام انبیا کا دین ایک ہی رہا ہے اور وہ ’’الاسلام‘‘ ہی ہے تو کیا مذکورہ احکام دیگر انبیا کے دین میں نہیں رہے ہوں گے؟ ان سنتوں کا آغاز تو پھر حضرت نوح سے یا حضرت آدم