کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 62
کا اظہار اور سلف کی راہِ ہدایت سے ہٹ کر زیغ و ضلال کی راہ نوردی اتنے واشگاف الفاظ میں اور اتنی بے باکی اور بلند آہنگی سے کی ہے کہ ان کی عبارتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، وہ اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہیں اور چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ ہمارا نظریہ حدیث و سنت وہ نہیں ہے جو چودہ سو سال سے اُمتِ مسلمہ میں مسلّمہ چلا آرہا ہے، بلکہ امت کے ائمہ سلف، علما و فقہا اور محدثین کو حدیث و سنت کا نہ مفہوم سمجھ میں آیا ہے اور نہ وہ ان کے مقام و مرتبے ہی کو پہچان سکے ہیں، بلکہ چودہ سو سال کے بعد یہ ’’سعادت‘‘ تو امامِ اول فراہی صاحب کو، دوسرے نمبر پر ’’امامِ ثانی‘‘ اصلاحی صاحب کو اور ’’امامِ ثالث‘‘ غامدی صاحب اور اُن کے ہمنواؤں کو حاصل ہوئی ہے ع یہ نصیب اﷲ اکبر لوٹنے کی جائے ہے! اور حدیث کا وہ مقام جو ان کی سمجھ میں آیا ہے کہ یہ باسند سلسلۂ روایات غیر معتبر اور ثانوی اہمیت کا حامل ہے اور قرآن فہمی میں بے سند شعرائے عرب کا جاہلی کلام یا پھر تحریف شدہ تورات و انجیل وغیرہ کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس طرفہ تماشے کے باوجود دعویٰ یہ ہے کہ ہمارے اور ائمۂ سلف کے درمیان سرِمو فرق نہیں ہے۔ صرف اصطلاحات کا فرق ہے۔ یہ گویا اپنے سوا سب کو بے وقوف سمجھنے والی بات ہے۔ محترم! اصطلاحات کا فرق ہی تو اختلاف کی اصل بنیاد ہے۔ جب ائمہ سلف کے نزدیک حدیث و سنت کا مفہوم کچھ اور ہے، جس کی رُو سے ایک تو حدیث و سنت ایک ہی چیز کا نام ہے۔ دوسرے، سارے دین کی بنیاد حدیث ہے اور اس کے بغیر نہ قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ قرآن پر عمل ہی کیا جا سکتا ہے۔ نیز تمام احادیثِ صحیحہ حجتِ شرعیہ اور ماخذِ شرعی ہیں۔ احادیث جس طرح