کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 61
جسارت بے جا ہے کہ وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور دعائیہ کلمات کے مقابلے میں ہر کہ و مہ کو اپنا طریقہ اور خود ساختہ دعائیہ کلمات اپنانے کی اجازت اور ترغیب دے رہے ہیں۔ {کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا} [الکھف: ۵] اہلِ اسلام کے نزدیک حدیث و سنت کا مفہوم اور غامدی صاحب کا مفہوم: غامدی صاحب کے اندر اس شوخ چشمانہ جسارت کا حوصلہ کیوں پیدا ہوا؟ اس لیے کہ وہ آپ کے طریقے اور عمل کو ’’سنت‘‘ سمجھنے کے لیے تیار نہیں، چناں چہ ان کے ٹیپ کا بند ملاحظہ فرمائیں: ’’لہٰذا سنت صرف یہی ہے کہ ہر نماز کی دوسری اور آخری رکعت میں نماز پڑھنے والا دو زانو ہو کر قعدے کے لیے بیٹھے، اس کے علاوہ کوئی چیز بھی اس موقع پر سنت کی حیثیت سے مقرر نہیں کی گئی۔‘‘ ہم نے الحمد ﷲ مکمل اقتباس دے کر اس کے مختلف ٹکڑوں کی وضاحت کی ہے، اس میں کمی بیشی نہیں کی ہے، تاکہ ان کا حلقۂ ارادت یا وہ خود یہ نہ کہہ سکیں کہ سیاق و سباق کو حذف کر کے ان کے مفہوم یا الفاظ کو غلط رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ ہم نے ایسا کیا ہے نہ ہم ایسا کرنا جائز ہی سمجھتے ہیں۔ یہ علمی بددیانتی ہے، جو اہلِ علم کے شایان نہیں، بلکہ ہم تو یہاں تک کہتے ہیں کہ غامدی صاحب یا ان کے ’’استاذ امام‘‘ کے ’’منصوص کلمات‘‘ کی شرح و توضیح میں بھی کوئی تجاوز ایسا ہوا ہو کہ بات ’’توجیہ القول بما لا یرضیٰ بہ القائل‘‘ کے درجے تک پہنچ گئی ہو تو ہمیں ان شاء اﷲ اس پر بھی معذرت کرنے میں کوئی تأمل نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ استاذ اور شاگرد؛ ان دونوں حضرات نے اپنی گمراہی