کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 60
میں فیصلہ فرما رہے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قعدۂ نماز میں فلاں چیز ضروری اور فلاں چیز غیر ضروری ہے۔ دلیل کیا ہے؟ صرف غامدی صاحب کے ذہنی تحفظات، یا ذہنی اُپج، یا اختراعات!! ورنہ حدیث میں تو کوئی اشارات ایسے نہیں ہیں، جن کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ ان کی حیثیت صرف راہنمائی کی ہے، یہ سنت نہیں ہے۔ یعنی راہنمائی سنت سے الگ چیز ہے۔ پھر اگر پیغمبر کی راہنمائی سنت نہیں ہے تو سنت کیا ہے؟ اور وہ پیغمبر ہی کیا ہے، جس کی راہنمائی (سنت) کوئی قابلِ عمل چیز ہی نہیں ہے؟! یہ فلسفہ بھی خوب ہے: ’’آپ نے تشہد اور درود سکھایا ہے، اس موقع کے لیے دعائیں بھی بتلائی ہیں، لیکن آپ نے ان کا پڑھنا لازم نہیں کیا ہے۔‘‘ سبحان اﷲ! کیا آپ کا نماز میں ان کا پڑھنا اور صحابہ کو پڑھنے کا حکم دینا، امت کے لیے ان پر عمل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے؟ مزید ستم ظریفی: ’’یہ آپ کے پسندیدہ اذکار ہیں اور ان سے بہتر کوئی چیز تصور نہیں کی جا سکتی، لیکن آپ کسی بات کا پابند نہیں کرنا چاہتے، بلکہ یہ اختیار دینا چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی سکھائی ہوئی دعائیں بھی کر سکتے ہیں اور ان کی جگہ دعا و مناجات کے لیے کوئی اور طریقہ بھی اپنا سکتے ہیں۔‘‘ لیکن یہ اختیار والی بات آپ کے کس طرزِ عمل سے جناب غامدی صاحب کو معلوم ہوئی ہے؟ اس کی دلیل کیا ہے؟ ورنہ اس اعتراف کے باوجود کہ ’’یہ اذکار نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ ہیں۔ نیز ان سے بہتر کوئی چیز تصور نہیں کی جا سکتی۔‘‘ کون بدبخت مسلمان ایسا ہوگا کہ وہ ان کو چھوڑ کر دعا و مناجات کا اپنا طریقہ اختیار کرے گا؟ اور زبانِ رسالت سے نکلے ہوئے مبارک الفاظ کی جگہ اپنے الفاظ میں دعا کرنا پسند کرے گا؟ یہ تو غامدی صاحب ہی کا حوصلہ یا ان کی