کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 55
یہ سراسر جھوٹ ہے، بلکہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ اور اپنے کامل معنوں میں فراڈ ہے۔ اگر وہ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں تو وہ بتلائیں کہ ’’سنت‘‘ کی یہ تعریف جو انھوں نے کی ہے: ’’سنت سے ہماری مراد دینِ ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔‘‘[1] اس میں پہلا سوال تو یہ ہے کہ ’’سنت‘‘ کا یہ مفہوم غامدی صاحب سے پہلے کسی نے بیان کیا ہے؟ اگر کیا ہے تو ثابت کریں اور اگر نہیں کیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ سنت کے منکر ہیں۔ جب تک وہ سنت کے چودہ سو سالہ مسلّمہ مفہوم کے مطابق سنت کو تسلیم نہیں کریں گے، وہ سنت کو ماننے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ اگر کرتے ہیں تو ان کا یہ دعویٰ جھوٹ ہی نہیں ہے، بلکہ سراسر دجل و فریب کا مظاہرہ ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ دینِ ابراہیمی کی وہ اصل روایت کیا ہے، جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید و اصلاح کی اور اس میں ’’بعض اضافے‘‘ بھی فرمائے؟ پہلے دینِ ابراہیمی کی اصل روایت سامنے آنی چاہیے کہ وہ کیا تھی؟ پھر بتلایا جائے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں فلاں فلاں ’’تجدید و اصلاح‘‘ یا اضافہ فرمایا۔ جب تک ان دو چیزوں کی وضاحت نہیں ہوگی، اسے ’’دین کی حیثیت‘‘ کس طرح دی جا سکتی ہے؟ دین تو وہ ہے جس کے دلائل کا تحریری ثبوت ہو۔ وہ تو دین نہیں ہوسکتا، جو صرف کسی ایک شخص کے ذہن میں ہو یا وہ اپنی ذ ہنی اختراع نکال کر کاغذ پر پھیلا دے۔
[1] میزان (ص: ۱۴) طبع سوم، ۲۰۰۸ء۔