کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 51
احادیث کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم جس قسم کا انسانی معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے، جو تہذیب و تمدن انسانوں کے لیے پسند فرماتا ہے اور جن اقدار و روایات کو فروغ دینا چاہتا ہے، اس کے بنیادی اصول ہر چند قرآن کریم میں بیان کر دیے گئے ہیں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس کی عملی تفصیلات و جزئیات سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے مہیا کی ہیں۔ اس لیے یہ اسوۂ رسول (اسوۂ حسنہ) جو احادیث کی شکل میں محفوظ و مدوّن ہے، ہر دور کے مسلمانوں کے لیے بیش قیمت سرمایہ رہا ہے۔ اسی اتباعِ سنت اور پیرویِ رسول کے جذبے نے مسلمانوں کو ہمیشہ الحاد و زندقہ (بے دینی) سے بچایا ہے، شرک و بدعت کی گرم بازاری کے باوجود توحید و سنت کی مشعلوں کو فروزاں رکھا ہے، مادیت کے جھکڑوں میں روحانیت کے دیے جلائے رکھے ہیں اور یوں شرار بو لہبی پر چراغِ مصطفوی ہمیشہ غالب رہا ہے۔ آج جو لوگ سنتِ رسول کی تشریعی حیثیت کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، وہ دراصل اسی اتباعِ سنت کے جذبے کو نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں جو قرآنِ کریم کے بپا کردہ اسلامی معاشرے کی روح اور بنیاد ہے اور جس کے بعد انسانوں کے اس معاشرے کو، جس میں مسلمان بستے ہیں، مغربی تہذیب و تمدن میں ڈھالنا مشکل نہیں ہو گا۔ چناں چہ ہمارے معاشرے کا یہی وہ طبقہ ہے، جو اپنے لبرل نظریات اور اِباحیت پسندانہ رویے کی وجہ سے حدیثِ رسول کی حجیت کا مخالف ہے اور صرف قرآنِ کریم کی پیروی کے نام پر مغربی اَفکار و تہذیب کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ پچھلے مختلف اَدوار میں بھی اگرچہ انکارِ حدیث کا یہ فتنہ کسی نہ کسی انداز سے رہا ہے، لیکن جو عروج اسے اس زمانے میں حاصل ہوا ہے، اس سے پیشتر کبھی نہ