کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 49
کو حکم دیا کہ ان کے کچھ درختوں کو جلایا، یا کاٹ دیا جائے، آپ نے اس حکمِ الٰہی کے مطابق صحابہ کو یہ حکم دیا، بالآخر یہودی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلے کو یہاں سے نکال دیا۔ اس کی بابت اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: {مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْھَا قَآئِمَۃً عَلٰٓی اُصُوْلِھَا فَبِاِِذْنِ اللّٰہِ وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ} [الحشر: ۵] ’’تم نے جو کھجور کے کچھ درخت کاٹے یا (کچھ کو) ان کی جڑوں پر ہی قائم رہنے دیا، یہ اﷲ کے اذن (حکم) سے ہوا اور تاکہ اﷲ تعالیٰ کافروں کو ذلیل و رسوا کرے۔‘‘ لیکن یہ حکم (اذن) قرآن میں کہاں ہے؟ کہیں نہیں ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کے علاوہ بھی وحی آتی رہی ہے اور اس وحیِ خفی کے مطابق بھی آپ نے احکام صادر فرمائے ہیں، جو یقینا قرآن کے علاوہ ہیں، قرآن میں ان کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ ایسے احکام کو زائد علی القرآن کہہ کر، یا قرآن کے خلاف باور کراکے کیوں کر رد کیا جا سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایسے فیصلوں اور حکموں کو جو قرآن میں منصوص نہیں ہیں، کتابِ الٰہی کا فیصلہ قرار دیا ہے، جس طرح شادی شدہ زانی کی سزا ’’حدِ رجم‘‘ ہے، جو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے عموم میں تخصیص کر کے مقرر فرمائی اور اس کو عملی طور پر نافذ بھی فرمایا۔ آپ نے اس حدِّ رجم کو ’’کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ‘‘ قرار دیا: (( لَأَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَابِ اللّٰہِ )) [1]
[1] صحیح البخاري، کتاب الحدود، رقم الحدیث (۶۸۲۸)