کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 46
بہر حال قرآنِ کریم کی بیان کردہ تفصیلات سے واضح ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت (نعوذ بالله) صرف ایک قاصد اور ’’چٹھی رساں‘‘ کی نہیں ہے، بلکہ آپ کی حیثیت ایک مطاع و متبوع، قرآن کے معلم و مبیِّن اور حاکم و حَکَم کی ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو فرامین صحیح سند سے ثابت ہیں، وہ دین میں حجت اور اسی طرح واجب الاطاعت ہیں، جس طرح قرآنی احکام پر عمل کرنا اہلِ ایمان کے لیے ضروری اور فرض و واجب ہے۔ صحابۂ کرام کا عمل اور رویہ: یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآنِ کریم اور احادیثِ رسول میں کوئی فرق نہیں کیا اور دونوں کو نہ صرف یکساں واجب الاطاعت جانا، بلکہ احادیث کو قرآن ہی کا حصہ گردانا، چناں چہ صحیح بخاری میں سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا واقعہ مذکور ہے۔ انھوں نے ایک موقعے پر فرمایا: (( لَعَنَ اللّٰہُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوْتَشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَیِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰہِ )) [1] ’’اﷲ تعالیٰ گُودنے والیوں اور گُدوانے والیوں پر، چہرے کے بال اُکھاڑنے والیوں اور حسن کے لیے آگے کے دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر لعنت کرے کہ یہ اﷲ کی پیدا کی ہوئی صورت میں تبدیلی کرنے والی ہیں۔‘‘ سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس بات کا علم قبیلۂ بنی اسد کی ایک عورت (اُم یعقوب) کو ہوا تو وہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور آکر کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس اس قسم کی عورتوں پر لعنت کی ہے۔
[1] صحیح البخاري، کتاب التفسیر، رقم الحدیث (۴۸۸۶)