کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 41
سے خاص اور مقید کیا گیا ہے اور جس کو آج تک سب بالاتفاق مانتے آئے ہیں اور آج بھی مولانا اصلاحی و غامدی (اور ان سے متاثر چند افراد) کے سوا، اہلِ سنت کے تمام مکاتبِ فکر اس کو مانتے ہیں۔ بنا بریں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا جس طرح یہ منصب ہے کہ آپ قرآن کے مجمل احکام کی تفسیر اور تفصیل بیان فرمائیں (جیسا کہ فرمائی ہے)، جیسے: نمازوں کی تعداد، رکعتوں کی تعداد اور دیگر مسائلِ نماز۔ زکات کا نصاب اور اس کی دیگر تفصیلات۔ حج و عمرہ اور قربانی کے مناسک و مسائل اور دیگر اس انداز کے احکام ہیں۔ اسی طرح آپ کو یہ تشریعی مقام بھی حاصل ہے کہ آپ ایسے احکام دیں جو قرآن میں منصوص نہ ہوں، جس طرح چند مثالیں ابھی بیان کی گئی ہیں۔ انھیں ظاہرِ قرآن کے خلاف یا زیادت علی القرآن یا نسخِ قرآن یا تغیر و تبدل باور کرا کے رد نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ ایسے احکامِ حدیثیہ کو ظاہرِ قرآن کے خلاف یا قرآن پر زیادتی یا قرآن کا نسخ یا تغیر و تبدل کہنا ہی غلط ہے۔ یہ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ منصب ہے جس کو قرآن نے اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل حکم دے کر بیان فرمایا ہے، مثلاً: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ } [النساء: ۵۹] ’’اے ایمان والو! اطاعت کرو اﷲ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے اولوا الامر کی۔‘‘ اس آیت میں اﷲ کی اطاعت، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور اولوا الامر کی اطاعت کا حکم مسلمانوں کو دیا گیا ہے، لیکن اولوا الامر کی اطاعت کے حکم کے لیے الگ {أَطِيعُوا} کے الفاظ نہیں لائے گئے، البتہ { أَطِيعُوا اللَّهَ } کے ساتھ