کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 38
اس میں چور کا لفظ عام ہے، معمولی چیز چرانے والا چور ہو یا قیمتی چیز چرانے والا۔ لیکن اس عموم سے حدیثِ رسول نے اس چور کو خارج کر دیا، جس نے ربع دینار (۴/۱) سے کم قیمت کی چوری کی ہو۔[1] یعنی چور { السَّارِقُ } کے عموم میں تخصیص کر دی کہ اس سے وہ خاص چور مراد ہے، جس نے ایک خاص قدر و قیمت کی چیز چرائی ہو نہ کہ ہر قسم کے چور کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے، جیسا کہ آیت کے عموم کا اقتضا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور تخصیصات بھی احادیث سے ثابت ہیں۔ نیز بعض فقہا کی عائد کردہ شرائط سے بھی۔ (جس کی تفصیل اہلِ علم جانتے ہیں۔ علاوہ ازیں ’’تدبرِ قرآن‘‘ میں بھی چھے سات شرطیں بیان کی گئی ہیں)۔ 2 قرآن کریم میں ہے: { حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ } [المائدۃ: ۳] ’’مردار اور خون تمھارے لیے حرام ہیں۔‘‘ لیکن اس عموم میں حدیثِ رسول نے تخصیص کی اور مچھلی اور ٹِڈّی (دو مردار) اور جگر اور تلی (دو خون) حلال قرار دیے: (( أُحِلَّتْ لَنَا مَیْتَتَانِ وَدَمَانِ: اَلْجَرَادُ وَالْحُوْتُ، وَالْکَبِدُ وَالطِّحَالُ )) [2] حالاں کہ عمومِ آیت کی رُو سے یہ چیزیں حرام قرار پاتی ہیں۔ 3 {قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ
[1] سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۹۳۲( [2] بلوغ المرام، کتاب الطھارۃ، رقم الحدیث (۱۱) اس حدیث کا سنداً موقوف ہونا صحیح ہے، لیکن حکماً مرفوع ہے، کیوں کہ صحابی کا کہنا ہے: ’’أُحلت لنا‘‘ یہ ’’أُمِرْنَا‘‘ اور ’’نُھینا‘‘ کی طرح حکماً مرفوع ہے۔ (شرح بلوغ المرام از مولانا صفی الرحمن مبارک پوری(