کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 366
گندگی پھیلے، اخلاقی مفاسد کی اشاعت ہو اور آئندہ نسلوں تک اُن کے بُرے اثرات متعدی ہوجائیں۔ انہی خرابیوں کا سدِّ باب کرنے کے لیے شریعت نے مرد کو طلاق کا اور عورت کو خلع کا حق دیا ہے، تاکہ اگر وہ چاہیں تو خود تسریح باحسان کے اصول پر عمل کر سکیں،[1] لیکن بہت سی ایسی جھگڑالو طبیعتیں بھی ہوتی ہیں، جو نہ امساک بالمعروف پر عمل کر سکتی ہیں اور نہ تسریح باحسان پر آمادہ ہوتی ہیں۔ نیز ازدواجی معاشرت میں ایسی صورتیں بھی پیش آجاتی ہیں، جن میں زوجین کے درمیان یا تو حقوق کے باب میں اختلاف واقع ہوتا ہے، یا امساک بالمعروف اور تسریح باحسان دونوں پر عمل کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے شریعت نے طلاق اور خلع کے علاوہ ایک تیسرا طریقہ بھی حقوق کے تصفیے اور حقوق اﷲ کی حفاظت کے لیے مقرر کر دیا ہے جس کا نام قضاے شرعی ہے۔[2] 9۔مولانا قاضی محمد رویس خاں ایوبی (آزاد کشمیر): یہ بھی ایک حنفی عالم اور مفتی ہیں۔ ان کا ایک فاضلانہ مقالہ حقِ خلع کے اِثبات میں ’’الشریعہ‘‘ (جون ۲۰۱۵) میں شائع ہوا ہے، جو ان کی کتاب ’’مقالاتِ ایوبی‘‘ میں شامل ہے۔ اس میں نہایت پرزور انداز میں حنفی علما کے حقِ خلع کے انکار والے موقف پر سخت تنقید کی گئی ہے، بلکہ دارالعلوم کراچی، جامعہ بنوریہ (کراچی) جامعہ فاروقیہ (کراچی) تینوں بڑے بڑے جامعات کے مفتیانِ کرام کو رگیدا گیا
[1] یہاں اس بات کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اسلامی شریعت میاں اور بیوی کے باہمی جھگڑوں کا پبلک میں علانیہ برسرِ عدالت آنا پسند نہیں کرتی۔ اس لیے اس نے عورت اور مرد دونوں کے لیے ایسے قانونی چارۂ کار رکھ دیے ہیں کہ حتی الامکان گھر کے گھر ہی میں وہ اپنے جھگڑے نمٹا لیں۔ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا بالکل آخری تدبیر ہے، جب کہ گھر میں فیصلہ کر لینے کا کوئی امکان نہ ہو۔ [2] حقوق الزوجین (ص: ۵۸۔ ۸۰)