کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 365
نفس پر روح فرسا تکلیفیں برداشت کرے یا قیدِ نکاح میں رہ کر اخلاقی فواحش میں مبتلا ہو یا پھر سرے سے دینِ اسلام ہی کو خیرباد کہہ دے۔ مگر کیا اسلامی قانون کا منشا بھی یہی ہے کہ عورت ان حالات میں سے کسی حالت میں مبتلا ہو؟ کیا ایسے ازدواجی تعلق سے شریعت کے وہ مقاصد پورے ہو سکتے ہیں، جن کے لیے قانونِ ازدواج بنایا گیا تھا؟ کیا ایسے زوجین میں مودّت و رحمت ہو گی؟ کیا وہ باہم مل کر تمدن کی کوئی مفید خدمت کر سکیں گے؟ کیا ان کے گھر میں خوشی اور راحت کے فرشتے کبھی داخل ہو سکیں گے؟ کیا یہ قیدِ نکاح کسی حیثیت سے بھی احصان کی تعریف میں آسکے گی اور اس سے دین اور اخلاق اور عفت کا تحفظ ہو گا؟ اگر نہیں تو بتایا جائے کہ ایک بے گناہ عورت کی زندگی برباد ہونے یا مجبوراً اس کے فواحش میں مبتلا ہوجانے یا دائرۂ دین سے نکل جانے کا وبال کس کے سر ہو گا؟ خدا اور رسول تو یقینا بری الذمہ ہیں، کیوں کہ انھوں نے اپنے قانون میں ایسا کوئی نقص نہیں چھوڑا ہے۔ قضائے شرعی: طلاق اور خلع کی بحث میں قانونِ اسلامی کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں، ان سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ قانون اس قاعدۂ کلیہ پر وضع کیا گیا ہے کہ عورت اور مرد کا ازدواجی تعلق اگر قائم رہے تو حدود اﷲ کی حفاظت اور مودّت و رحمت کے ساتھ قائم رہے، جس کو قرآن میں امساک بالمعروف کے جامع لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اگر اس طرح ان کا باہم مل کر رہنا ممکن نہ ہو تو تسریح باحسان ہونا چاہیے۔ یعنی جو میاں بیوی سیدھی طرح مل کر نہ رہ سکتے ہوں وہ سیدھی طرح الگ ہوجائیں اور ایسی صورتیں پیدا نہ ہونے پائیں کہ ان کے اختلاف سے نہ صرف ان کی اپنی زندگی تلخ ہو، بلکہ خاندانوں میں فتنے برپا ہوں، سوسائٹی میں