کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 363
ہے۔‘‘ اگر قاضی ایک شوہر کو حکمین کا فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار پر حراست میں رکھ سکتا ہے تو وہ خود اپنا فیصلہ منوانے کے لیے تو بدرجۂ اولیٰ قوت استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کے تمام معاملات میں سے صرف ایک خلع ہی کا مسئلہ ایسا ہو، جسے قاضی کے اس حق سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ فقہ کی کتابوں میں متعدد جزئیات ایسے ملتے ہیں، جن میں قاضی کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر شوہر اس کے حکم سے طلاق نہ دے تو قاضی خود تفریق کرا دے۔ پھر کیوں نہ خلع کے مسئلہ میں بھی قاضی کو یہ اختیار حاصل ہو؟ آگے چل کر جو مباحث بیان ہوں گے، ان سے یہ حقیقت اور بھی زیادہ واضح ہو جائے گی کہ عنین (نامرد) اور مجبوب (مقطوع الذکر) اور خصّی اور جذامی اور مبروص (کوڑھی) اور مجنون شوہروں کے مسئلے میں فقہائے کرام نے جو ضوابط بیان کیے ہیں اور اسی طرح خیارِ بلوغ اور بعض دوسرے مسائل میں جو اجتہادی قوانین مقرر کیے گئے ہیں، ان کی موجودگی میں تو نہایت ضروری ہوگیا ہے کہ عورتوں کو خلع دلانے کے پورے اختیارات قاضی کو حاصل ہوں۔ ورنہ جو عورتیں ایسے حالات میں گرفتار ہو جائے، ان کے لیے بجز اس کے اور کوئی صورت ہی نہیں رہتی کہ یا تو وہ تمام عمر مصیبت کی زندگی بسر کریں، یا خود کشی کر لیں یا اپنے داعیاتِ نفس سے مجبور ہو کر فواحش میں مبتلا ہو جائیں، یا مجبوراً مرتد ہو کر قیدِ نکاح سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ توضیحِ مدعا کے لیے ہم یہاں ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔ عنین (نامرد) کے معاملے میں فقہی مسئلہ یہ ہے کہ اس کو ایک سال تک علاج کی مہلت دی جائے گی۔ اگر علاج کے بعد وہ ایک مرتبہ بھی ہم بستری پر