کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 362
فی الواقع قاضی اس معاملے میں صرف سماعت کا اختیار رکھتا ہو، مگر مرد کے راضی نہ ہونے کی صورت میں اس سے اپنا فیصلہ منوانے کااقتدار نہ رکھتا ہو تو قاضی کو مرجع قرار دینا سرے سے فضول ہی ہوگا، کیوں کہ اس کے پاس جانے کا نتیجہ بھی وہی ہے جو نہ جانے کا ہے۔ لیکن کیا احادیث سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ قاضی اس معاملہ میں بے اختیار ہے؟ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے جتنے فیصلے اوپر منقول ہوئے ہیں۔ ان سب میں یا تو صیغۂ امر آیا ہے، جیسے ’’طَلِّقھَا‘‘ (اسے طلاق دے) ’’فَارِقْھَا‘‘ (اس سے جدا ہو جا) اور ’’خَلِّ سَبِیْلَھَا‘‘ (اس کو چھوڑ دے) یا یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے مرد کو حکم دیا کہ ایسا کرے اور ابن جریر رحمہ اللہ نے سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے جو روایت نقل کی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ (( فَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا )) ’’پھر آپ نے ان کو جدا کر دیا۔‘‘ اور یہی الفاظ اس روایت میں بھی ہیں، جو خود جمیلہ بنت اُبی بن سلول سے منقول ہے۔ اس کے بعد یہ شبہہ کرنے کی کوئی گنجایش نہیں رہتی کہ قاضی خلع کے معاملے میں حکم دینے کا مجاز نہیں۔ رہا یہ سوال کہ اگر شوہر اس حکم کو محض مشورہ سمجھ کر ماننے سے انکار کر دے تو کیا قاضی اس سے جبراً اپنا حکم منوا سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہد میں تو ایسی کوئی مثال ہم کو نہیں ملتی کہ آپ نے کوئی فیصلہ صادر کیا ہو اور کسی نے اس سے سرتابی کی جراَت کی ہو۔ لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے پر ہم قیاس کر سکتے ہیں، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہیکڑ شوہر سے فرمایا تھا: ’’لَسْتَ بِبَارِحٍ حَتّٰی تَرْضیٰ بِمِثْل مَا رَضِیْت بہ‘‘ یعنی ’’تجھے نہ چھوڑا جائے گا، جب تک کہ تو بھی اسی طرح حَکمین کا فیصلہ قبول کرنے پر راضی نہ ہو، جس طرح عورت راضی ہوئی