کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 36
سے ہوئی ہے، جس میں آپ کی اطاعت واجب اور نافرمانی حرام ہے اور اسے تقدیم علی کتاب اﷲ بھی نہیں کہا جا سکتا، بلکہ یہ اﷲ تعالیٰ کے اس حکم کی فرماں برداری ہے جس میں اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ اگر اس (تیسری) قسم میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہ کی جائے اور یہ کہا جائے کہ آپ کی اطاعت صرف انہی باتوں میں کی جائے گی، جو قرآن کے موافق ہوں گی تو آپ کی اطاعت کا حکم بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے اور آپ کی وہ خاص اطاعت ہی ساقط ہو جاتی ہے جس کا حکم اﷲ تعالیٰ نے دیا ہے: {مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَ مَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا}۔‘‘ حدیث کی اس تیسری قسم (زائد علی القرآن) ہی کی بابت نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تنبیہی انداز میں فرمایا تھا: (( أَلَا إِنِّيْ أُوْتِیْتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ )) [1] ’’خبردار! یاد رکھنا! مجھے قرآن بھی عطا کیا گیا ہے اور اس کی مثل (سنت) بھی۔‘‘ 1 اور آپ کا یہی وہ منصب ہے، جو قرآنِ کریم کی اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے: {وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ } [النحل: ۴۴] ’’اے پیغمبر! ہم نے آپ کی طرف قرآن اس لیے اتارا ہے، تاکہ آپ لوگوں کو اس کی تشریح و تبیین کر کے بتلائیں۔‘‘
[1] سنن أبي داود، باب لزوم السنۃ، رقم الحدیث (۴۶۰۴(