کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 358
باقی رہنے سے خلع کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ نیز چونکہ عورت نے جو مال اُس کو دیا ہے، وہ عقدِ نکاح سے اپنی رہائی کے معاوضہ میں دیا ہے، اس لیے اگر شوہر معاوضہ لے لے اور اس کو رہائی نہ دے تو یہ فریب اور دغا ہو گی، جس کو شریعت جائز نہیں رکھ سکتی۔ ہاں اگر عورت دوبارہ اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، کیوں کہ یہ طلاقِ مغلّظہ نہیں ہے، جس کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کے لیے تحلیل شرط ہو۔
8 خلع کے معاوضہ کی تعیین میں اﷲ تعالیٰ نے کوئی قید نہیں لگائی ہے۔ جیسے معاوضے پر بھی زوجین راضی ہوجائیں، اس پر خلع ہو سکتا ہے، لیکن نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ناپسند فرمایا کہ شوہر خلع کے معاوضہ میں اپنے دیے ہوئے مہر سے زیادہ مال لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(( لَا یَأْخُذُ الرَّجُلُ مِنَ الْمُخْتَلِعَۃِ أَکْثَرَ مِمَّا أَعْطَاھَا ))
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی بالفاظِ صریح اس کو مکروہ فرمایا ہے۔ ائمۂ مجتہدین کا بھی اس پر اتفاق ہے، بلکہ اگر عورت اپنے شوہر کے ظلم کی وجہ سے خلع کا مطالبہ کرے تو شوہر کے لیے سرے سے مال ہی لینا مکروہ ہے، جیسا کہ ہدایہ میں ہے:
’’وإن کان النشوز من قبلہ یکرہ لہ أن یأخذ منھا عوضاً‘‘
ان تصریحات کو دیکھتے ہوئے اس باب میں اصولِ شرع کے ماتحت یہ ضابطہ بنایا جا سکتا ہے کہ اگر خلع مانگنے والی عورت اپنے شوہر کا نشوز ثابت کر دے یا خلع کے لیے ایسے وجوہ ظاہر کرے، جو قاضی کے نزدیک معقول ہوں تو اس کو مہر کے ایک قلیل جز یا نصف کی واپسی پر خلع دلایا جائے اور اگر وہ نہ شوہر کا نشوز ثابت کرے نہ کوئی معقول وجہ ظاہر کرے تو اس کے لیے پورا مہر یا اس کا ایک بڑا حصہ واپس کرنا ضروری قرار دیا جائے، لیکن اگر اس کے رویے میں