کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 357
بھی کسی اخلاقی قید سے مقید نہ ہونا چاہیے۔ تیسری بات یہ ہے کہ کوئی طالبِ خلع عورت دوحال سے خالی نہ ہوگی، یا وہ فی الحقیقت خلع کی جائز ضرورت رکھتی ہوگی یا محض ذوّاقہ ہوگی۔ اگر پہلی صورت ہے تو اس کے مطالبہ کو ردّ کرنا ظلم ہو گا اور اگر دوسری صورت ہے تو اس کو خلع نہ دلوانے سے شریعت کے مقاصد فوت ہو جائیں گے۔ اس لیے کہ جو عورت طبعاً ذوّاقہ ہوگی، وہ اپنے ذوق کی تسکین کے لیے کوئی نہ کوئی تدبیر کر کے رہے گی۔ اگر آپ اس کو جائز طریقے سے ایسا نہ کرنے دیں گے تو ناجائز طریقوں سے اپنی فطرت کے داعیات کو پورا کرے گی اور یہ زیادہ بُرا ہوگا۔ ایک عورت کا پچاس شوہروں کو یکے بعد دیگرے بدلنا اس سے بدرجہا بہتر ہے کہ وہ کسی شخص کے نکاح میں رہتے ہوئے ایک مرتبہ بھی زنا کا ارتکاب کرے۔ 6 اگر عورت خلع مانگے اور مرد اس پر راضی نہ ہو تو قاضی اس کو حکم دے گا کہ اسے چھوڑ دے۔ تمام روایات میں یہی آیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے ایسی صورتوں میں مال قبول کر کے عورت کو چھوڑ دینے کا حکم دیا ہے اور قاضی کا حکم بہرحال یہی معنی رکھتا ہے کہ محکوم علیہ اس کے بجا لانے کا پابند ہے۔ حتی کہ اگر وہ بجا نہ لائے تو قاضی اس کو قید کر سکتا ہے۔ شریعت میں قاضی کی حیثیت صرف ایک مشیر کی نہیں ہے کہ اس کا حکم مشورے کے درجے میں ہو اور محکوم علیہ کو اس کے ماننے یا نہ ماننے کا اختیار ہو۔ قاضی کی اگر یہ حیثیت ہو تو لوگوں کے لیے اس کی عدالت کا دروازہ کھلا ہونا محض بے معنی ہے۔ 7 خلع کا حکم نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصریح کے مطابق ایک طلاقِ بائن کا ہے، یعنی اس کے بعد زمانۂ عدت میں شوہر کو رجوع کا حق نہ ہو گا، کیوں کہ حقِ رجوع