کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 355
ثابت بن قیس کی بیویوں سے منقول ہیں۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں کی اس شکایت کو خلع کے لیے کافی سمجھا کہ ان کا شوہر بدصورت ہے اور وہ ان کو پسند نہیں ہے۔ آپ نے ان کو خوبصورتی کے فلسفے پر کوئی لکچر نہیں دیا، کیوں کہ آپ کی نظر شریعت کے مقاصد پر تھی۔ جب یہ امر متحقق ہوگیا کہ ان عورتوں کے دل میں شوہر کی طرف سے نفرت و کراہت بیٹھ چکی ہے تو آپ نے ان کی درخواست کو قبول فرما لیا، کیوں کہ نفرت و کراہت کے ساتھ ایک عورت اور مرد کو جبراً ایک دوسرے سے باندھ رکھنے کے نتائج دین اور اخلاق اور تمدن کے لیے طلاق و خلع سے زیادہ خراب ہیں۔ ان سے تو مقاصدِ شریعت ہی کے فوت ہو جانے کا خوف ہے۔ پس نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ قاعدہ نکلتا ہے کہ خلع کا حکم نافذ کرنے کے لیے محض اس بات کا تحقیق ہو جانا کافی ہے کہ عورت اپنے شوہر کو قطعی ناپسند کرتی ہے اور اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی۔ 2 سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فعل سے معلوم ہوتا ہے کہ نفرت و کراہت کی تحقیق کے لیے قاضی شرع کوئی مناسب تدبیر اختیار کر سکتا ہے، تاکہ کسی شبہہ کی گنجایش نہ رہے اور بالیقین معلوم ہوجائے کہ اس جوڑے میں اب نباہ ہونا متوقع نہیں ہے۔ 3 سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فعل سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نفرت و کراہت کے اسباب کا کھوج لگانا ضروری نہیں ہے اور یہ ایک معقول بات ہے۔ عورت کو اپنے شوہر سے بہت سے ایسے اسباب کی بنا پر نفرت ہوسکتی ہے جن کو کسی کے سامنے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے اسباب بھی نفرت کے ہو سکتے ہیں جن کو اگر بیان کیا جائے تو سننے والا نفرت کے لیے کافی نہ سمجھے گا، لیکن