کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 354
ایک حصہ لے لے اور اس سے جدا ہو جا۔ مگر ابن ماجہ نے حبیبہ کے جو الفاظ نقل کیے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حبیبہ کو بھی ثابت کے خلاف جو شکایت تھی، وہ مار پیٹ کی نہیں، بلکہ بدصورتی کی تھی، چناں چہ انھوں نے وہی الفاظ کہے، جو دوسری احادیث میں جمیلہ سے منقول ہیں، یعنی اگر مجھے خدا کا خوف نہ ہوتا تو ثابت کے منہ پر تھوک دیتی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک عورت اور مرد کا مقدمہ پیش ہوا۔ آپ نے عورت کو نصیحت کی اور شوہر کے ساتھ رہنے کا مشورہ دیا۔ عورت نے قبول نہ کیا۔ اس پر آپ نے اسے ایک کوٹھڑی میں بند کر دیا، جس میں کوڑا کرکٹ بھرا ہوا تھا۔ تین دن قید رکھنے کے بعد آپ نے اسے نکالا اور پوچھا کہ تیرا کیا حال رہا؟ اس نے کہا: خدا کی قسم! مجھ کو انہی راتوں میں راحت نصیب ہوئی ہے۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے شوہر کو حکم دیا کہ ’’اِخْلَعْھَا وَیحک وَ لَوْ مِنْ قرطھا‘‘ اس کو خلع دے دے، خواہ وہ اس کے کان کی بالیوں کے عوض ہی میں ہو۔[1] ربیع بنت معوذ بن عفراء نے اپنے شوہر سے اپنی تمام املاک کے معاوضہ میں خلع حاصل کرنا چاہا۔ شوہر نہ مانا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس مقدمہ پیش ہوا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو حکم دیا کہ اس کی چوٹی کا موباف تک لے لے اور اس کو خلع دے دے۔ فأجازہ وأمرہ بأخذ عقاس رأسھا فما دونہ۔[2] احکامِ خلع: ان روایات سے حسبِ ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے: 1 {فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ} کی تفسیر وہ شکایات ہیں، جو سیدنا
[1] کشف الغمۃ، (ج: ۲) [2] عبدالرزاق بحوالہ فتح الباري۔